Malik Mukhtar
Hearts are usually broken by words left unspoken
Saturday, 27 December 2014
یادگار غالب
ٹوبہ ٹیک سنگھ
| سعادت حسن منٹو | ||
|
بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل ، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے _ معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول ، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں ، اور بالاخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرّر ہو گیا _ اچّھی طرح چھان بین کی گئی _ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے _ وہیں رہنے دئے گئے تھے _ جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا _ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے _ اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا _ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے _ سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دئے گئی_ ادھر کا معلوم نہیں _ لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مگوئیاں ہونے لگیں _ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز با قائدگی کے ساتھ " زمیندار " پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا _ " مولبی ساب ، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے " _ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا _" ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں " _ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا _ اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا _" سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی " _ دوسرا مسکرایا _ " مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں " ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے " پاکستان زندہ باد " کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بیہوش ہو گیا _ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے _ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں _ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے _ لیکن صحیح واقعات سے یہ بھی بے خبر تھے _ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی انپڑھ اور جاہل تھے _ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے _ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمّد علی جناح ہے جس کو قائدِ اعظم کہتے ہیں _ اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے ، اس کا محلِّ وقوع کیا ہے _ اس کے متعلّق وہ کچھ نہیں جانتے تھے _ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں _ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے _ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے _ ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان ، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکّر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا _ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی _ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا _ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا " میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہونگا " _ بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا _ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائینگے _ ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دی _ چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سر گرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کر دی _ اس کا نام محمّد علی تھا _ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائدِ اعظم محمّد علی جنّاح ہے _ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا _ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا _ لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبّت میں نا کام ہو کر پاگل ہو گیا تھا _ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا _ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبّت ہو گئی تھی _ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا _ چنانچہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دئےاس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی _ جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے _ اس کو ہندوستان بھیج دیا جائیگا _ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے _ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا _ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلیگی _ یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے _ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا _ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی _ یوروپین وارڈ رہیگا یا اڑا دیا جائیگا _ بریک فاسٹ ملا کریگا یا نہیں _ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑیگی _ ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے _ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین" _ دن کو سوتا تھا نہ رات کو _ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لئے بھی نہیں سویا _ لیٹتا بھی نہیں تھا _ البتّہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا _ ہر وقت کھڑے رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے _ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں _ مگر اس جسمانی تکلیف کے با وجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا _ ہندوستان ، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلّق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا _ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا _" اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ " _ لیکن بعد میں " آف دی پاکستان گورنمنٹ " کی جگہ " آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ " نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے _ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں _ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے _ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے _ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے _ اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غیب ہی ہو جائیں _ اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کے بہت مختصر رہ گئے تھے _ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے _ جن کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی _ مگر آدمی بے ضرر تھا _ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا _ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلّق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں _ اچّھا کھاتا پیتا زمین دار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا _ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے _ مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے _ ایک مدّت تک یہ سلسلہ جاری رہا _ پر جب پاکستان ، ہندستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا _ اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے _ اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے ، مہینہ کون سا ہے ، یا کتنے سال بیت چکے ہیں _ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا _ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آ رہی ہے _ اس دن وہ اچّھی طرح نہاتا ، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا ، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا _ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی لالٹین " کہ دیتا _ اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی _ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا _ وہ بچّی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی ، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے _ پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے _ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی _ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی _ پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں ، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی _ اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہم دردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل ، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے _ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناً اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں _ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں _ پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا _ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ، تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا _" وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں _ اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا " _ بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اسلئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے _ ایک دن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورو جی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح جو بولے سو نہال ، ست سری اکال " _ اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے _ تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا _ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا _ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا _ مگر سپاہیوں نے اسے روکا _ " یہ تم سے ملنے آیا ہے تمہارا دوست فضل دین ہے " _ بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا _ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا _ " میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے مجھ سے جتنی مدد ہو سکی ، میں نے کی _ تمہاری بیٹی روپ کور . . . . " وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا _ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا _" بیٹی روپ کور " _ فضل دین نے رک رک کر کہا _ " ہاں . . . . وہ . . . . وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی " _ بشن سنگھ خاموش رہا _ فضل دین نے کہنا شروع کیا _ " انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔ بھائی بلبیسر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا-اور بہن امرت کور سے بھی . . . . بھائی بلبیسر سے کہنا _ فضل دین راضی خوشی ہے۔ وہ بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے _ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے ۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھہ دن کی ہو کے مر گئی . . . . اور . . . . میری لائق جو خدمت ہو ، کہنا ، میں ہر وقت تیار ہوں . . . . اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں " _ بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا _ "ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ " _ فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا _ " کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں تھا " _ بشن سنگھ نے پھر پوچھا _ " پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ " " ہندوستان میں نہیں نہیں پاکستان میں " _ فضل دین بوکھلا سا گیا _ بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دور فٹے منہ ! ،، تبادلے کے تییاریاں مکمّل ہو چکی تھیں _ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرّر ہو چکا تھا _ سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں _ متعلّقہ افسر بھی ہمراہ تھے _ واہگہ کے بورڈر پر طرفین کے سپرنٹندنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کاروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا _ پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا _ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے _ جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے _ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا _ کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے ، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے ۔کوئی گالیاں بک رہا ہے _ کوئی گا رہا ہے _ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں _ رو رہے ہیں ، بلک رہے ہیں _ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے _ پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی _ اسلئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے _ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے " پاکستان زندہ باد " اور " پاکستان مردہ باد " کے نعرے لگا رہے تھے _ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا ، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آ گیا تھا _ جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلّقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا _ " ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ " معتلّقہ افسر ہنسا _ " پاکستان میں " _ یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا _ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے ، مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا _ "ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے " اور زور زور سے چلّانے لگا _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان " _ اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائیگا _ مگر وہ نہ مانا _ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپن سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی _ آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی ، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا _ سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا ، اوندھے منہ لیٹا ہے _ ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان _ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئ نام نہیں تھا _ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا _ -----------**************---------- |
اردو زبان کی ابتداء کے متعلق نظریات
|
زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداءکی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
دکن میں اردو
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد و شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاءسے ہے۔ ابتداء سے نہیں۔“
اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن ) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے ، یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے ۔ طلو ع اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر ، مال تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پیدا ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ ہوسکاجہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے البتہ فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔
سندھ میں اردو
یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں:
”مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہو ا ہوگا۔“
اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاو اسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل “ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوےٰ کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔بقول ڈاکٹر غلام حسین:
”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے ۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتداءکا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔“
اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی ، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگئی۔ اس آمیز ش کا ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
پنجاب میں اردو
حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتداءپنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتداءاس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمو د غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیا م سے تقریباً دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعراءکا کلام پیش کیا ہے ۔ جس میں پنجابی ،فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
”سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 1000ءسے 1026ک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج ، گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا البتہ 1025ءمیں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے ، علماءاور صوفیا نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ درگروہ اسلام قبول کرنے لگے اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا ۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاںکی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان ، عربی ، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔“
مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب ، جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔ 1193ءمیں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہوگئے۔ ابلاہور کی بجائے دہلی کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازماً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی ۔
تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے علاوہ پرفیسر محمود خان شیرانی ، اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں: ” اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماءو افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاءبلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد ، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔“
مختصراً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بناءپر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔
پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے ۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو ، پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
حافظ محمود شیرانی کی تالیف”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتداءکے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ ذرا مشکوک سا ہو گیا ۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداءکے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔ یوں حافظ محمودشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔
دہلی میں اردو
اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں ۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی نشوونما اور ارتقاءمیں تو مانی جا سکتی ہے ابتداءاور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان علاقوں کو اردو کے ارتقاءمیں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتداءکا مسلمانوں سے یا سرزمین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس زبان کاآغاز انہی اضلاع میں ہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔“
ان نظریات کے علاوہ میر امن ، سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔
مجموعی جائزہ
اردو کی ابتداءکے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔یوں محققین کی ان آراءکے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند ( موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔
|
ریاست جموں وکشمیر میں اُردو بحیثیت سرکاری زبان
|
پروفیسر نذیر احمد ملک شعبۂ اُردو، کشمیر یونیورسٹی،سرینگر تین جغرافیائی خطوں پر مشتمل ریاست جموں وکشمیر کا قیام مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور ِ حکومت میں اس وقت عمل میں آیا جب ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ میں امرتسر معاہدے کے تحت اُنہوں نے انگریزوں سے جموں اور کشمری کے صوبوں پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل کیا۔لداخ کا علاقہ پہلے ہی اُن کی تحویل میں تھا۔ڈوگروں کی یہ حکومت ایک صدی سے بھی زائد عرصے تک قائم رہی۔ ڈوگرہ دور ِ حکومت میں ریاست کا بیشتر سرکاری کام فارسی زبان میں انجام پذیر ہوتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ڈوگری کی سرپرستی بھی کی جا رہی تھی۔لیکن انیسویں صدی میں شمالی ہندوستان میں اُردو کے عُروج اور فارسی کی انحطاط پذیر صورت ِ حال کا ثر ڈوگروں کی لسانی حکمت ِ عملی پر بھی پڑا۔مزید ڈوگروں کے شمالی ہندوستان کے درباروں کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ ہندوستان کے شمالی علاقوں سے مختلف امور کے سلسلے میں جو لوگ جموں آتے تھے، وہ اُردو میں ہی بات چیت کرتے تھے۔ ڈوگری ،پنجابی سے گہرا لسانی رشتہ رکھنے کی بنا پر اُردو سے بھی بہت قریب تھی۔چنانچہ اہل ِ جموں کو اُردو سیکھنے میں زیادہ دِقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے کہ اُردو کا پنجابی لہجہ ڈوگروں کے لئے نامانوس نہیں تھا۔چنانچہ رنبی سنگھ کے دور ِ حکومت ۱۸۵۷۔۱۸۸۵ سے ہی جموں میں اُردو کے لئے سازگار ماحول قائم ہونے لگا تھا۔اُن کے دربار سے وابستہ علمائ اور فضلا اُردو سے واقف تھے۔اِن میں دیوان کرپا رام سنگھ،غوث محمد ہوشیار پوری،پنڈت رام کرشن وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔ریاست بالخصوص جموں میں اُردو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،ریاست کی لسانی تقسیم اور شمالی ہندوستان سے تہذیبی، تجارتی اور لسانی رابطوں کے پیش ِ نظر مہاراجا رنبیر سنگھ کے جانشین مہاراجہ پرتاب سنگھ۔۱۸۸۵ تا ۱۹۲۵۔ نے ۱۸۱۸۹ میں فارسی کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔اس طرح پوری ریاست میں اُردو زبان کی اشعات اورفروغ کی راہیں کھلنے لگیں۔بیسیویں صدی کے وسط تک ریاست جموں وکشمیر میں تعلیمی، ادبی، صحافتی، سیاسی، غرض ہر سطح پر اُردو زبان کا ایک اہم اور واضح رول متعین ہو چکا تھا۔ اور اس نے ریاست کی مختلف اکائیوں کے درمیان لنگواا فراینکا کا درجہ بھی حاصل کیا تھا۔چنانچہ جب ۱۹۵۶ میں ریاست کا آئین منظور کیا گیا تو ریاستی قانون ساز اسمبلی نے اُردو کی غیر معمولی عوامی مقبولیت کے پیش َ نظر اس کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی توثیق کیْ اُسی سال ہندوستان میں ریاستوں کی تقسیم بھی لسانی بنیادوں پر کی گئی۔ ریاست جموں وکشمیر چونکہ ایک کثیر لسانی علاقہ ہے اور یہاں بولی جانے والی تمام زبانیں اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔ نیز اُن کا دائرۂ اثر دُوسرے علاقوں تک نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے اس ایک علاقے کو دوسرے علاقوں پر لسانی اور سیاسی برتری حاصل نہ ہو، ایک بہتر منصوبے کے تحت اُردو زبان کو اس منصب سے سرفراز کیا گیا لیکن انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش بھی واضح طور پرترکھی گئی۔اس سلسلہ میں ریاستی آئین کی دفعہ ۱۴۵ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں: “The official language of the state shall be Urdu but the English language shall unless the Legislature by law provides, continue to be used for all the official purposes of the state for which it was being used immediately before the commencement of this constitution.” ********** ریاستی عدلیہ میں زبان کے استعمال کے سلسلہ میں دفعہ ۸۷ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں ********** “1.Business in the Legislature shall be transacted in Urdu or in English. Provided that the speaker of the Legislature Council or person acting as such as the case may be, may permit any member to address the house in Hindi, or if he can not adequately express himself in any of the aforesaid languages, to address the house in his mother tongue. 2.The official record of the proceedings in the Legislature shall be kept in Urdu as well as in English. 3.The text of all th bills and amendments there of moved in and of all Acts passed by the Legislature which shall be treated as authoritative shall be English” آئین کے چھٹے شڈیول میں کشمیری، ڈوگری،بلتی،دردی،پنجابی،پہاڑی لداخی کو علاقائی زبانوں کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اِن تمام زبانوں بشمول اُردو اور ہندی کی ترقی اور اشاعت کے لئے دفعہ ۱۹۶ کے تحت جموں وکشمیر آکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز قائم کرنے کی سفارش اس طرح کی گئی ہے۔ ****** “ The Governor shall, as soon as may be, after the commencement of the constitution establish an Academy of Art, Culture and Languages where opportunities will be afforded for the development of Art and Culture of the state and for the development of the Hindi, Urdu and other regional languages of the state specified in the sixth schedule.” چنانچہ ۱۹۵۸ کو اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کسی بھی کثیر السانی ملک، ریاست یا علاقے میں وہاں کی ایک یا کئی زبانوں کو سرکاری درجہ دینے سے فطری طور پر کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کو کبھی کبھی خطرناک صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ سرکاری درجہ ملنے سے ایک زبان اور اس کے بولنے والوں کی ہر طرح سے توقیر بڑھ جاتی ہے۔بالخصوص سیاسی اقتصادی زندگی میں ان کی شمولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔نتیجتاً سماجی زندگی کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی حالات میں ایک’نیوٹرل‘ یا ناوابستہ زبان کو ہی سرکاری درجے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔تاکہ کوئی بھی مقامی لسانی گروہ کسی طرح کے احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ریاست جموں وکشمیر میں اُردو کسی علاقے کی مادری زبان نہیں لیکن یہ زبان اہل ِ ریاست کے لئے اجنبی بھی نہیں ہے۔اس لئے اس کو سرکاری زبان اختیار کرنے میں اہل ِ اختیار نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اس کے ساتھ انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش رکھنا بھی اُن کی دور اندیشی کا مظہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تہذیبی، نسلی اور لسانی افراق عموماً ملک کی ہمہ گیر ترقی کے لئے رکاوٹ کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس طرح کی صورت ِ حال میں بہتر اور وسیع کمیونی کیشن کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی کثیر السانی ملک، ریاست یا علاقے میں وہاں کی ایک یا کئی زبانوں کو سرکاری درجہ دینے سے فطری طور پر کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کو کبھی کبھی خطرناک صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ سرکاری درجہ ملنے سے ایک زبان اور اس کے بولنے والوں کی ہر طرح سے توقیر بڑھ جاتی ہے۔بالخصوص سیاسی اقتصادی زندگی میں ان کی شمولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔نتیجتاً سماجی زندگی کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی حالات میں ایک’نیوٹرل‘ یا ناوابستہ زبان کو ہی سرکاری درجے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔تاکہ کوئی بھی مقامی لسانی گروہ کسی طرح کے احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ریاست جموں وکشمیر میں اُردو کسی علاقے کی مادری زبان نہیں لیکن یہ زبان اہل ِ ریاست کے لئے اجنبی بھی نہیں ہے۔اس لئے اس کو سرکاری زبان اختیار کرنے میں اہل ِ اختیار نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اس کے ساتھ انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش رکھنا بھی اُن کی دور اندیشی کا مظہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تہذیبی، نسلی اور لسانی افراق عموماً ملک کی ہمہ گیر ترقی کے لئے رکاوٹ کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس طرح کی صورت ِ حال میں بہتر اور وسیع کمیونی کیشن کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصب کے جذبات بھڑک جاتے ہیں اور سرکاری مشینری کی توجہ ترقی کی رفتار تیز کرنے کے بجائے قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی طردف مرکوز ہو جاتی ہے۔اس طرح کے ملکی حالات میں نیچرل زبان کی سرپرستی اور تشہیر ہمیشہ ملکی اور قومی مفادات کے حق میں ہوتی ہے۔اس کے برعکس ایک علاقائی زبان کو ترجیحی بنیاد فراہم کرنے سے Internal Colonalization کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جس کو سیاسی قائدین اپنے حقیر مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال میں لا سکتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جامع اور ہمہ گیر کمیونی کیشن ،اقتصادی ترقی کی دلیل ہوتی ہے اور بہتر کمیونی کیشن کے لئے ایک زبان کی قبولیت سے اہم اور کار گر وسیلہ ہے۔لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس طرح کے اقدام سے علاقائی زبانوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی ترویج اور تشہیر حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہو جاتی بلکہ ان حالات میں سرکار کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں اور حکومت کے لئے ایک واضح لسانی پالیسی مرتب کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔جس کے تحت سرکاری اور علاقائی زبانوں کے رول کو بھی متعین کرنا پڑتا ہے۔ |
Subscribe to:
Comments (Atom)



