Friday, 26 December 2014

اکتشافی تنقید


حامدی کاشمیری

12/26/2014
اپنی صد سالہ روایت کے باوجود ، اردو تنقید آج بھی ایکسوالیہ نشان بن کر سامنے آتی ہے اور اس کے تفاعل اور ضرورت کے با رے میں بے اطمینانی میں تخفیف واقع نہیں ہورہی ہے ۔حالی نے لکھنوی روایتی شاعری کے خلاف رد عمل کے طور پر اورسرسید کی اصلاحی تحریک کے زیر اثر ، مقدمہ ¿ شعرو شاعری میں شاعری کے سماجی ، اصلاحی اور اخلاقی مقاصد پرز ور دیا اور ایسا کر تے ہوئے اپنے استاد اور نا بغہ ¿ روز گار غالب کی تخلیقیت سے معمور شعر یا ت سے انحراف کیا۔ یہ انحراف اردو تنقید کے لئے بہت مہنگا پڑا ۔ کیونکہ حالی کے پرو کا روں نے تنقید کے اسی افا دی نقطہ ¿ نظر کو حرزجاں بتایا ۔ اور تنقید کا کام یہ ٹھہرا یا کہ شاعری کے علامتی کر دار سے صرف نظر کر کے چند گنے چنے سماجی ،سوانحی اور تاریخی موضوعات کی نشاندہی کی جائے ۔ شاعری کا یہ مقصدی کر دار اقبال جیسے غیر معمولی تخلیقی ، شاعرکے یہاں بھی کئی مقامات پر نمو دار ہو تا ہے اور پھر ما رکسی نظریے نے تو تنقید کو ادبی منصب سے معزول کر کے اسے طے کر دہ سماجی اور سیاسی موضوعات کی نشاندہی کے سماجی کام پر ما مور کیا اور جوادب اس کا متحمل نہ ہو سکا ۔ اسے رجعت پسندانہ کہہ کر مسترد کر دیا مارکسی نظریہ ¿ تنقید کی یہ خود ساختہ تا ویل اردو کے نقادوں کی ہی ایجاد تھی ۔ورنہ مغرب کے مارکسی نقادوں نے بالعموم اپنی حدود میں رہ کر بھی وسیع النظری کا ثبوت دیا ہے ۔ یہی حال کم و بیش اُن نظریات نقد مثلاً نفسیاتی ، تاثراتی اور تمدنی نظریات کا بھی رہا ۔ جو مارکسی تنقید کی ہی مانند مغرب سے ما خوذتھے ۔ اور جن کو اُردو کے نقادوں نے اپنے علمی استوار اور ادرا ک کے مطا بق بر تا ، رچرڈس ، رین سم اور بر وکس کے زیر اثر جن اردو نقادوں نے ہیئتی تنقید کے نمونے پیش کئے ۔ وہ تخلیق کو مصنف سے آزاد کر انے اور اس کے خود کفیل وجود پر اصرار کر نے کے با وجود اس کے حرف و پیکر سے اخذ معانی کے رویے سے دستبردار نہ ہوئے ۔ یہی حال لسانیاتی تنقید کا بھی ہے وہ بھی قدر سنجی کے بجائے تشریح معنی کو اپنا مطمحِ نظر بناتی ہے ۔ اسلوبیاتی تنقید ہوتی صوتی اور نحور سطحوں پر تخلیق کے معانی کی تعین میں دلچسپی لیتی رہی ۔
بہر کیف ، اردو تنقید کے مروجہ نظر یات فی الجملہ تخلیق سے برا بر یہ مطالبہ کر تے رہے ہیں کہ وہ مصنف کی شخصی زندگی کو پیش کرے ۔ یا اس کے معا شرتی ، عصری اور تاریخی واقعات و حالات سے متعلق معلومات فراہم کرے اور یہی تنقید کا تفاعل قرار پایا ۔ اور نقاد تجزیہ و تحلیل سے کام لے کر اسی مقصد کی تکمیل میں مصروف رہے ۔ یہاں تک کہ اگر تخلیق کے لسانیاتی اور ہئیتی عناصر کی دیدہ ریزی کرکے بھی تجزیہ کیا گیا ہو ۔ پھر بھی منتہائے مقصد معنی مطلب ہی کو نشان زد کر نا ٹھہراہے ۔
قبل اس کے کہ اس نوع کے تنقید ی عمل سے تعرض کیا جا ئے ۔ فن کے حوالے سے اس کی پیچیدگی پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ ایک بڑی پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فن کو متعینہ موضوع یا معنی کی ترسیل کا ذریعہ قرا ر دیا جائے ۔ کیونکہ اس صورت میں شعر ہو یا فکشن مقررہ ہیئتی عادات اور مخصوص لسانی عمل کے با د صف مقصد براری کے پیش نظر اصلاحی (Informatory) نثر کے ہم سطح ہو کے رہ جاتا ہے ۔ا گر شعر سے سوانحی حالات یا معا شرتی مافیہ کا علم ہی مطلوب ہے ۔تو اس کے ہیئتی اجزاءاور لسانیاتی ترتیب یعنی بحر ، قافیہ ، ردیف ، آہنگ ، لہجہ اور استعارہ و علامت کی موجودگی کا کیا جواز ہے ؟ تخلیق سے معنی و مطلب کے استخراج پر اصرار کر نے سے اس کے تخلیقی کر دار کی کیا صورت باقی رہتی ہے ؟ ایک اورا لجھن یہ ہے کہ اگر فن تا ریخی یا عمرانی حقائق کی ترجمانی کا کام کر تا ہے ، تو تعین قدر کا امکان کیا ہے ، اگر دو شاعر ایک ہی نظریہےکے تحت اپنے اپنے کلام میں معا شرتی مسائل کی عکاسی کریں ۔ تو اُن کی قدر سنجی کا مسئلہ کیونکہ حل ہو گا ۔ یعنی اگر فن موضوعیت ٹھہرا ، تو مخدوم محی الدین اور نیاز حیدر ، جو مارکسی نظریے کے شاعر ہیں ، کی قدر شناسی کیونکر ممکن ہوگی؟ مزید برآں ، موضوعیت پر اصرار منطقی طور پر فن کو موضوع اور ہیئت میں منقسم کر نے کے مترادف ہے ، سوال یہ ہے کہ کیا موضوع اور ہیئت کو الگ الگ کیا جاسکتا ہے ؟اگر ایسا کیا گیا تو فن کی سالمیت اور استفاد کا تحفظ کیونکر ممکن ہے ؟
یہ سارے پیچیدہ سوالات اردو میں مستعمل نظریات نقد کے پیدا کر دہ ہیں ، لیکن تعجب ہے کہ نقاد حضرات کے کانوں تک اِن سوالات کی آہٹ بھی پہنچ نہیں پاتی ، یا تو یہ سوالات اُن کے سروں پر سے گزر جاتے ہیں ۔ یا اپنے نظریات سے وفا داری اُن کو حقائق کا سامنا کر نے سے محروم کر چکی ہے ۔
یہ بات بد یہی ہے کہ مختلف شعبہ ہائے فکر انسان کے ذہنی اور فکری میلانات اور عوامل کے تحت حقائق کی تلاش و تعین کر تے ہیں ، اور لوگوں کے علم میں تو سیع کا سبب بنتے ہیں ۔جہاں تک فن کا تعلق ہے یہ انسان کے ذہنی اور فکری عمل کے ساتھ سا تھ اس کے نفسیاتی ، شعوری اور لا شعوری محرکات کی وحدت پذیرائی سے تخلیقی توانائی میں ڈھل کر یا تو خارجی حقیقت کی تقلیب پر منبتج ہو تا ہے ۔ یا نا دیدہ اور اجنبی حقیقت کو خلق کر تا ہے ۔ اور انسانی آگہی میں شدت اور جمالیاتی تسکین کا با عث بنتا ہے ۔
فنکار کی غیرمعمولی تخلیقی قوتیں اس کے ذریعہ اظہار ( میڈیم ) میں متشکل ہو جاتی ہیں ۔
شاعر کے تخلیقی ذہن کے اظہار کی شناخت زبان کے علامتی بر تا ﺅ سے ہوتی ہے ۔ فکری سطح پر حیات و کائنات کی بے ثباتی ، اختلال اور تضاد کو محسوس کر کے فنکار ایک ایسی کائنات خلق کرنے کا آرزو مند ہو تا ہے جو پائیدار ، نموپذیر ، مر بو ط اور مثالی ہو ، یہ عمل اس کے متشددانہ شعور سے ہی مر بوط ہیں، بلکہ بقول فرائیڈ نفسیاتی محرومیوں کی بھی ضرورت ہے ۔ اور بقول یونگ اجتماعی لاشعور کا بھی تقاضا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ فنکار کی تخلیقی جہد و کا وش اس کی تخیلی کائنات پر منبتح ہو کے بھی حقیقی کائنات سے رشتوں کی تنسیخ نہیں کرتی ۔ اس لئے کہ وہ مخصوص تو ارث اور ما حول کے اثرات کے تحت ہی نشو و نما پا تا ہے ۔ لہذا ، جو الفاظ وہ بر تتاہے ۔ وہ سماجی اصل سے بیگانہ ہو ہی نہیں سکتے ۔ پس یہ نتیجہ نکلنا سہل ہو جاتاہے کہ تخلیقی عمل نا دیدہ جہانوں کو خلق کر کے تجسس وتحیر کو بیدار کر تاہے اور جمالیاتی نشاط کا ساماں کر تا ہے ۔ ساتھ ہی وہ حیات و کائنات کی آگہی میں شدت کا باعث بنتا ہے ۔ یہی فن کا تفاعل ہے ۔اور تنقیدکی کا ر گزاری کا نچوڑ فن کے اسی عمل کی دید ودریافت ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ اعلیٰ فن تخلیقیت کا رائیدہ ہو نے کی بنا پر لا زماً علامتی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ اس لئے تفہیم و تحسین کی مشکلیں پیدا کر تا ہے ، ان مشکلوں پر ایک دیدہ ور نقاد ہی قابو پا سکتا ہے ۔اس کے بر عکس عوامی ادب نقاد کی ضرورت کو کالعدم کر تا ہے ۔ کیونکہ وہ را ست بیانی سے ابلاغ کے مسئلے پیدا نہیں کر تا ۔
پس اعلیٰ فن کے علامتی کر دار کی بنا پر نقاد کی ضرورت نا گزیر ہے ۔ نقاد تخلیق سے اس کے میڈیم یعنی لسانی ساخت کے تو سط سے قریبی را بطہ قائم کر تا ہے اور اس کی تخلیقی کا ئنات میں وا رد ہو تا ہے ،جہاں اس کا سامنا حیرت خیز اور اثر انگیز ، وقوعات سے ہوتاہے ۔ وہ تخلیق کے لسانی عناصر کا تجزیہ کر تے ہوئے لفظوں کے متنوع تلازموں اور رشتوں سے ایک اجنبی صورت حال سے قاری کو بھی گزارتا ہے اور اس کے فکری اور جمالیاتی تقاضوں کی تشفی کا ساماں کر تا ہے ۔ یہ تنقیدی نکتہ قدر ے و ضاحت طلب ہے ۔ ادب پا رہ لفطوں کی موسیقیانہ ترتیب سے تشکیل پاتا ہے ۔گو یا تکمیل یافتہ ادب پارہ ایک لسانیاتی معروض یا مظہر ہے چونکہ لسانی بر تا ﺅ کم سے کم الفاظ سے زیادہ سے زیادہ تلازمی امکانات کے لئے فضا ہموار کر نے کا کام کر تا ہے ۔ اس لئے تخلیق کا ہر لفظ کلی صورت حال کی تشکیل میں اہم رو ل ادا کر تا ہے ۔ لفظ کے ساتھ ساتھ لفظوں کے مابین سکوت اور توقف بھی اپنا کام کر تا ہے ، اتناہی نہیں بلکہ تخلیق کا ر یا شعری کر دار لہجے کے اُتار چڑھا ﺅ اور شعری آہنگ کی تبدیلی Variatiorسے کلی صورت حال کو متاثر کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں ، تخلیق کی پیکر تراشی ، استعارہ کا ری اور رمزیت اس کے وجود کو وجود سر بستہ بناتی ہے ۔ مروجہ تنقیدی نظریات کی بالخصوص ہئیتی تنقید کی اِ ن ہئیتی اور لسانیاتی با ریکیوں اور نزاکتوں پر نظر رکھتی ہے ۔ لیکن جو چیز تخلیق کی فرضی دنیا میں اُن کی مہم جویانہ سیاحت میں ما نع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ تخلیق سے کلی یا جزوی طور پر موضوعیت یا معنی کے متقاضی ہو تے ہیں ۔ جو نہی وہ تخلیق میں برتے جانے والے کسی لفظ یا لفظوں کی مجموعی ترکیب سے سماجی یا سوانحی مفاہیم کا استخراج کر تے ہیں ۔ اسی لمحے اُن کا اصل تخلیق سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ بزعم خود تخلیق کی تلخیص یا تفسیر پیش کرتے ہیں ۔ اس لاعلمی کے ساتھ کہ جو چیز وہ پیش کرتے ہیں ۔ وہ اصل تخلیق سے کوئی را ستہ رشتہ نہیں رکھتی اور یہی وہ مقام ہے جہاں اُن کی تنقیدی مساعی بے اثر اور غیر متعلقہ ہو کہ رہ جاتی ہے ۔
اِس نازک مقام پر اکتشافی نظریہ تنقید ہی فن کی سالمیت اور بقاءکا تحفظ کرنے ، اور اس کے تخلیقی کر دار کو نمایاں کر نے میں اہم رو ل اد اکر تا ہے ۔ یہ نظریہ ¿ تنقید اولاً ، ہئیتی تنقید کی ہی طرح فن کے آزاداور خود کفیل وجود کو تسلیم کر تا ہے اور ہئیتی تنقید کی ہی طرح اس کے ہئیتی اور لسانیاتی اجزاءکا تجزیہ کر تا ہے ۔ لیکن ہئیتی تنقید کے اعلیٰ الرغم یہ تخلیق کو اُس کی لسانیاتی ساخت کی بنا پر مصنف یا معا شرے سے قطعی انقطاع پر اصرار نہیں کر تا ۔ تخلیق چونکہ معا شرے کے ایک ذی حس فرد کے تجربوں کی تجسیم کا ری کر تی ہے اس لئے گر د و پیش کی زندگی سے لاتعلق نہیں ہوسکتی ۔ مگر یہ تعلق با لواسطہ ہو تا ہے اور صورت پذیر تجربے کی تقلیب کو ممکن بنا تا ہے ، نتیجتاً ایک نئی تخئیلی حقیقت خلق ہو تی ہے جس کے ارد گرد میں مصنف کا لہو رواں ہو تا ہے اور یہ معاشرتی احساس سے مترشع ہو تی ہے ، تاہم ان عناصر کی موجودگی اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ فنکار بلا واسطہ سوانحی یا معا شرتی حقائق و کوائف کی ترجمانی کر تا ہے ۔
دوم، اکتشافی تنقید کا کام یہ نہیں کہ وہ ہئیتی تنقید یا دیگر نظریات نقد کی طرح تخلیق کے تجزیاتی عمل میں معنی و مطلب کی کشید کے فرومایہ اور غیر متعلقہ عمل پر زور دے ۔ اکتشافی تنقید اس تخئیلی فضایا صورت حال کا مشاہدہ کر اتی ہے ۔ جو تخلیق میں لفظوں کے ترکیبی عمل سے نمود کر تی ہے ۔ تنقید کا حقیقی تغاعل یہیں پر قابل شناخت ہوجاتا ہے ۔ یہ اعلیٰ فن کے نمونوں مثلاً شیکسپیئر کے ڈراموں ، میر اور غالب کی شاعری ، انیس کے مرثیوں ، میر حسن کی مثنوی ، اقبال کے کلام اور انتظار حسین کے افسانوں کے تجزیہ و تحلیل سے اپنے مطلوبہ نتائج کا دعویدار ہو سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ اکتشافی تنقید کی رو سے تخلیق میں موضوعیت یا معنی کی نشاندہی کا عمل بہر حال ثانوی اہمیت رکھتا ہے اور تنقید کے بجائے درسی ضرورت کی تکمیل کر تا ہے ۔ کیونکہ تخلیق کاری کسی موضوع یا معنی کی راست ترسیلیت سے کوئی سروکار نہیں رکھتی ۔ یہ تخئیلی سطح پر ”نمود صور‘ کا معجزاتی عمل ہے جو قاری کو حیر ت زدہ کر تا ہے اور حیرت و استعجاب کے بعد اس کی معنویت کے بارے میں استعارات کر تا ہے ۔ تاہم تخلیق کے معنی کی تشریح کا مر حلہ اتنا اسان نہیں جتنا کہ یہ نظر آتا ہے ۔ مشرق و مغرب کے نقادوں نے معنی یا بی کے مسئلے پر خوب دماغی کا وش سے کام لیا ہے ۔ مگر اُن کی مساعی کثرت تعبیر کی شکار نظر آتی ہے ”معنی فی بطن شاعر“کے تصور سے کر تخلیق میں مصنف کے پیش کر دہ معنی ، اور پھر کثیر المعنویت کے نظریے کے بعد، سا ختیاتی نقطہ ¾ ¿نظر سے معنی کے بجائے ، معنی کی فضا کے امکانات کی تلاش ، جو لسانیاتی رشتوں کے تجریدی نظام سے مر بوط ہے ۔ اورپھر معنی کے عدم و جود اور بقول بارتھ قاری کی شرکت فقرات سے تخلیقِ معانی ، یہ سارے تصورا ت معنی یا بی کے کسی قطعی اصول کو پیش نہیں کر تے ۔ سا ختیاتی تنقید کی رو سے تخلیق کے الفاظ سماجی قبولیت کی بنا پر اُن ثقافتی اور تاریخی معانی کے لا تعلق نہیں ہو سکتے ۔ جن کے مصنف کا شعور بر ومند ہو تا ہے ۔ کیونکہ وہ اس کی زبان سے منسلک ہیں ۔ تاہم اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیق کے الفاظ لسانیاتی ردّو بدل کے عمل سے گزر کے خارجی حوالوں کے ساتھ سا تھ تخلیق کے لسانیاتی نظام سے مر بو ط ہو تے ہیں اور تخلیقیت کے اصول کے پیش نظر اُن کا اولین کام یہ ہے کہ لفظوں کی علامت کا ری سے ایک تما م ترصورت حال کو خلق کریں اور ہاں جب تشریح معنی کی ضرورت پڑے ۔ تو کسی واحد یا قطعی معنی کے بجائے کثرت یعنی پر توجہ مر کو ز کریں ۔یاد رہے کہ تخلیق پر بدلتے عہد میں اور ہر نئے باذوق قاری کے لئے معانی کے نئے نئے جہانوں کو منکشف کر نے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو تی ہے ۔
اکتشافی تنقید کی اصطلاح وضع کر نے اور اس کی وضاحت کر نے سے میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی مجھے اس کی ضرورت ہے ، میں جیسا کہ بعض دوستوں کاخیال ہے کسی نئے دبستان تنقید کا بانی کہلایا جاﺅں ، میں صرف یہ عرض کر نا چاہتا ہوں کہ تنقیدی معا ئر کو اپنے صحیح تناظر میں برتا جا ئے ، تاکہ فن اور تنقید کے صحیح تفاعل کی پہچان ہو سکے اور ادبی اقدار فروغ پاسکیں ، یہ تنقیدی کام موضوعی ہے ۔ نہ شخصی اور نہ ہی تاثراتی ہے ۔ جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے یہ ٹھوس لسانیاتی اساس رکھتا ہے اور لفظ کی صوتیاتی اور معنیاتی نزاکتوں کی تحلیل و تفہیم کے ساتھ ساتھ اس کے دیگر ترکیبی الفاظ سے متنوع اور متضادرشتوں کی شناخت پر منحصر ہے ۔ اور ساتھ ہی لفظوں کے علامتی بر تاﺅں کے تجزیہ پر استوار ہے ، بھلابتا یے اس میں تاثراتی انداز کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟۔ یہ ٹھوس ، معروض اور متو ازن طریقہ نقد ہے جو نہ صرف تخلیق کے باطنی رموز کو آشکار کرتا ہے ۔ بلکہ علامتیت کی پیچیدگی کے مطا بق تجربے کی دقت جیسے جو ناتھ کلر ”لفظی مسافت کی وقعت “ قرار دیتا ہے ۔ کے مطابق تعین قدر کے مسئلے کا معقول حل بھی پیش کرتا ہے ۔ 

No comments:

Post a Comment