تحریر: محمد جان رحمت جان
جدیدیت اور تبدیلی کی اصطلاحات سن کر آج کل ہر شخص کے خیال میں بہت بڑا تناؤ پیدا ہوتا ہے، سوچ اور فکر کی لہریں طوفانی صورت اختیار کرتی ہیں۔ جب انسان اپنی معاشرتی و مذہبی فرائض سرانجام دے رہا ہوتا ہے، عبادت گاہوں میں، گھریلو زندگی میں، کاروبار میں ثقافتی زندگی میں، کھانے پینے میں ، کھیل کود میں اور سیاسی تناظر میں ان دونوں اصطلاحات کے معنی کچھ اور ہی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر غاروں اور جنگلوں کی زندگی سے موجودہ زندگی کے اسٹائل، زراعت میں انقلابی مشینی اوزار کا استعمال، صنعت میں ترقی سیاست کا انداز، کھیل کود اور انسانی زندگی کے دوسرے عوامل انسان کو اس دنیا میں آئے لاکھوں سال گزر گئے مگر تبدیلی ارتقائی طریقے سے روبہ عمل ہوئی۔ آج انسان تبدیلی کے طوفان سے نہ صرف نبرد آزما ہونے کی سعی کرتا ہے بلکہ تبدیلی کے اس عمل میں اپنے کردار و انجام سے خائف نظر آتا ہے۔ اس موضوع پر بحث کرنے سے پہلے ان اصطلاحات کی مزید وضاحت کی کوشش کی جاتی ہے۔
تبدیلی کو انگریزی میں Changeاور جدیدیت کو modernityکہتے ہیں۔ تبدیلی کے عمل میں سب پر نظر ڈالنے کے بجائے پہلے ہم صرف سماجی تبدیلی کے بارے میں ماہرین کے نظریات کا مشاہدہ کریں گے۔ عمرانی شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین سماجی تبدیلی کے تین نظریات رکھتے ہیں۔ ارتقائی نظریہ تبدیلیEvolutionary change ،دوری یا گردشی تبدیلی Cyclical Change اور تقابلی یا نظریہ تصادمConflict theory۔ ارتقائی نظریہ تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جو آرام آرام سے درجہ بدرجہ ترقی کے مدارج طے کرتی ہے۔ اس مرحلے میں توہم پرستی، مابعد الطبیعات اور مثبت سائنسی کار ہائے نمایاں شامل ہیں۔ یعنی وہ ترقی جو ترقی کے بعد اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہیں۔ مثلاً USSRکا ٹوٹنا، سوشلسٹ نظریہ اور نظام کا عروج تھا۔ بعض اوقات معاشرے کا اور پیچیدہ ہو جانا۔ اس نظریے کا دفاع کرنے والوں میں August ComeاورHurtbart Spenserشامل ہیں۔
دوری یا گردشی نظریہ تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جو سماج میں جنم پانے کے بعد عروج کی طرف جاتا ہے۔ یعنی پیدائش، جوانی، بڑاپا وغیرہ۔ اس کی ایک اور مثال مصر، ٹیکسلا، ہڑپہ، یونان، روم اور دیگر تہذیبیں ہیں جو کسی زمانے میں دنیا کے مختلف حصوں میں شروع ہوکر عروج و زوال سے ہمکنار ہوئے۔ یعنی درجہ بدرجہ ترقی کی منازل کی طرف رواں دواں ہونا۔
تقابلی تبدیلی سے مراد معاشرے میں رہنے والے گرہوں کا مقابلاتی ترقی، مارکسزم اس نظریے کے روح رواں تھے جسے امیر و غریب، اونچے اور نچلے درجے اور ذاتیات وغیرہ۔ ان تینوں نظریات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تبدیلی کے تین مدارج ہیں ارتقائی، دوری یا گردشی اور مقابلہ جاتی۔ ان کے علاوہ معاشرے کی تبدیلی میں انقلابی تبدیلی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مثال کے طور پر صنعت اور مشین، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا، یہ وہ جدید ترین چیزیں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں راتوں رات تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جنگل اور زراعت کے زمانے کے لوگ بھی مختصر عرصے میں ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئیں۔
تبدیلی کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عددی تبدیلیNumerical Change اور صفاتی تبدیلیCharactical change، عددی تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جس سے ہم اعداد و شمار میں گن سکتے ہیں جیسے انسانی آبادی، درخت، دُکانیں، گھر وغیرہ۔ ان تمام چیزوں کی تبدیلی کمی یا اضافے کو ہم دیکھ سکتے ہیں، گن سکتے ہیں اور اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ صفاتی تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی جس میں جوہر وہی رہتا ہے لیکن شکل میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ جیسے H2O، کیمیائی تعاملات، مہمان نوازی، حسن سلوک وغیرہ۔
مائیکل فولن کہتے ہیں کہ”Every improvement is change but every change is not improvement.“ ’ہر (کسی چیز کی صفات اور جسامت یا شکل میں) بہتری کو تبدیلی اور اور ہر تبدیلی کو بہتری نہیں کہتے ہیں،۔
تبدیلی اور جدیدیت کا عمل ازل سے ہے اور ہر زمانے کے لوگ اپنے آپ کو جدید کہتے رہے ہیں اور کہتے رہیں گے۔ لب و لہجے میں فرق کے ساتھ ہر زمانے کے ادیبوں، اور مصنفین نے ان اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جیسے اس صدی کے نامور شخصیت سمویل ہنٹینگٹن کہتے ہیں ”جدیدیت میں صنعت، شہری زندگی، خواندگی کا معیار، تعلیم و صحت، سماجی انتظامی ڈھانچہ، رویے، اقدار، علم اور لوگوں کی ثقافت شامل ہیں۔ یہ چیزیں جدید معاشروں میں اور روایتی معاشروں باہم مختلف ہیں۔ جدید مغربی معاشرے اور روایتی معاشرے میں دو وجوہات کی بنا پر امتیاز کیا جاتا ہے۔ (اوّل) جدید معاشرے کے لوگ ایک دوسرے سے علم و عمل کے ذریعے ایک مشترکہ ثقافت تو نہیں لا سکتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے سیکھتے ضرور ہیں۔ (دوم) روایتی معاشرہ زراعت پر مبنی ہے جبکہ جدید معاشرہ صنعت پر مبنی ہے“۔
انہی خیالات کو جب ہم ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی کتاب ’اسلام اور جدیدیت، میں پڑھتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیاق و سباق کے امتزاج کو سمجھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی از سر نو تشکیل میں راہ فراہم کرنا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیم جدید دانشورانہ اور روحانی ماحول میں کس طرح با معنی ہو سکتی ہے اس لئے نہیں کہ مذہب کو جدیدیت سے دور بچا کے رکھا جائے بلکہ اس لئے کہ جدید انسان کو مذہب کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جائے“۔
پرنس کریم آغا خان فرماتے ہیں کہ” اور جب ہم لوگ سوال کرتے ہیں کہ جدید معاشرے کی حدود کہاں تک ہیں تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ جدید سائنس کی کوئی حدود نہیں ہیں کیونکہ اللہ خالق ہے اور جب سائنسدانوں کے دماغوں میں غرور کی ہوا بھر جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں کوئی غیر معمولی چیز دریافت کی ہے تو حقیقت میں وہ جو کچھ بھی دریافت کرتے ہیں وہ اللہ کی تخلیق کی قدرتِ کاملہ کی طرف ایک اشارہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اہم ہے امت کے بچوں کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار سکتے ہیں جس کو ہم جدید کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہ سو سال پہلے بھی لوگ اپنے معاشروں کو جدید کہتے تھے۔ لیکن در حقیقت یہ ہے کہ اسلام پر عمل اور جس معاشرے میں ہم زندگی گزارتے ہیں، کے درمیان اسلام میں کوئی فرق نہیں اس کے بارے میں اسلام کا ایک ٹھوس اور واضح جواب موجود ہے“۔ (موائنزہ تنزانیہ 42 نومبر2891)
قرآن مجید میں اس حوالے سے کئی آیات موجود ہیں جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ رحمٰن میں فرماتے ہیں ”جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس سے سوال کرتا ہے اور ہر روز وہ ایک شان میں ہوتا ہے“ (55:29)۔ قرآن پاک کے نزول کے وقت بھی اللہ پاک نے وقت اور حالات کے مطابق آیات نازل فرمائی۔ ’ جو آیت ہم منسوخ کرتے ہیں یا اس کی یاد اٹھا لیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی قسم کی لے آتے ہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے“ (02: 106)۔
ایک انگریز pipe، path of Godمیں لکھتا ہے کہ ”اسلام اور جدیدیت میں کوئی اختلاف نہیں، مسلمان سائنس، صنعت اور جدید اسلحہ کا صحیح استعمال جانتے ہیں۔ جدیدیت کے لئے کسی سیاسی نظریے، انتظامی ڈھانچے جیسے الیکشن، قومی حدود، شہری تعاون اور دوسرے مغربی معیار اور معیشت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی شریعت بھی کہتی ہے کہ جدیدیت صرف زراعت سے صنعت، دیہات سے شہر، سماجی استحکام سے سماجی بہاﺅ ہے، نہ کہ ان معاملات میں متصادم جیسے تعلیم عامہ، بہتر مواصلاتی ترقی، نئے زرائع آمد و رفت اور صحت عامہ“۔
جدیدیت اور تبدیلی وقت کی ضرورت ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عقائد، اقدار، رویے، اور اخلاقی معیار بھی تبدیل ہوں گے اس معاملے کو باریکی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی کن کن شعبوں میں آتی ہے۔ تبدیلی اور جدیدیت انسانی معاشرے میں رہن سہن، لباس، زبان، تعمیرات، آسائشات، ڈیزائن، صنعت و حرفت اور اشکال میں ممکن ہے۔ چیزوں کا اصل جوہر وہی رہتا ہے اور شکلیں بدلتی ہیں یہی وہ مضامین ہیں کہ جنہیں فزکس بحث کرتا ہے۔ مثلاً کپڑے اور مکان کا اصل کام اور مقصد جسم ڈھانپنا اور پناہ گاہ ہے بیشک ان کی ڈیزائن اور اشکال میں جتنی بھی تبدیلی کیوں نہ آئے۔
اس تمام بحث کے بعد ہم تبدیلی کے اہم محرکات کے بارے میں سوچیں گے جو کہ درجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔ آب و ہوا، جغرافیائی حالات، سیاسی حالات، معیشت، میڈیا، زبان اور مذہب۔
آب و ہوا: کرۂ ارض کے مختلف حصوں میں موسمی تبدیلیاں جن میں خشک سالی، بارشیں اور طوفان شامل ہیں، کی وجہ سے لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنی زبان، لباس، مذہب، ثقافت اور عادات سے دوسرے معاشروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جغرافیائی حالات: جغرافیائی حالات بھی معاشرتی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ زلزلے، طوفان، سیلاب اور دوسرے عوامل انسانوں کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
سیاسی تبدیلی: سیاسی حالات بھی تبدیلی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ جیسے سلطنتیں، بادشاہتیں، ممالک، اور قبائلی نظام انسانی زندگی پر دوررس اثرات مرتب کرتے ہیں جن میں خانہ جنگی، ملکی حالات اور دوسرے مسائل جنم لیتے ہیں مثلاً USSRکا ٹوٹنا، نئے ممالک کا وجود میں آنا وغیرہ۔ 9/11کا واقعہ اور اس کے بعد امریکی اتحادی افواج کا مختلف ملکوں میں مداخلت کرنا۔
معیشت: کسی معاشرے کی ترقی اور تبدیلی کا انحصار اس کی معیشت پر ہے۔ معیشت خراب ہونے کی وجہ سے ملک میں بے تحاشا مسائل جنم لیتے ہیں جیسے غربت، افلاس، بے روزگاری، سمگلنگ، احتجاج، تعلیم اور صحت عامہ جیسی مشکلات سے معاشرہ مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ معیشت مضبوط ہو تو اس معاشرے میں زندگی کا انداز ہی کچھ وار ہوتا ہے پرامن ماحول، خوشحالی، اور معیار زندگی کے نتیجے میں صحت مند معاشرے وجود میں آتے ہیں۔
میڈیا: تبدیلی کے عمل میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کے مناظر اور خبریں پل بھر میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی ثقافتوں اور روایات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً معاشرے میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ ایک دوسرے کو اتنا متاثر ہیں کہ ان کی وجہ سے معاشرے میں میوزک کی ایک نئی اور مشترکہ سمت سامنے آ رہی ہے۔ میری نظر میں سب سے زیادہ میڈیا معاشرے پر اثرانداز ہے۔
زبان: زبان بھی معاشرتی ترقی کا ضامن ہے۔ ہم عصر زبان کی وجہ سے لوگ علم و عمل میں بہت آگے گئے ہیں۔ اب ہر ایک چیز کی سمجھ زبان کے بغیر ممکن نہیں۔ زبان وہ آلہ ہے جو نہ صرف ایک انسان کا دوسرے سے رابطہ بنتا ہے بلکہ زبان ہی تاریخ و ثقافت کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج انگلش اور دنیا کی دیگر بڑی زبانیں دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ لوگ بین الااقوامی زبانوں کے نام سے اپنے زبانوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ زبان سے مراد یہاں بولی ہی نہیں بلکہ وہ تمام ادبی خزانہ جو کسی قوم کی ترقی اور زوال کی یادگار ہیں۔ زبان اپنے ساتھ ثقافت اور روایات بھی نئی معاشروں میں متعارف کراتا ہے۔
مذہب: مذہب بھی معاشرتی تبدیلی میں بہت بڑا عنصر ہے۔ اسلام آنے کے بعد مکہ مکرمہ اور مدینہ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اسلام نے اپنے تعلیمات اور روایات سے عربوں کو بہت متاثر کیا۔ اس طرح عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، جین مت، شنتو مت، سنگھ مت، پارسی اور دیگر ادیان نے معاشروں کو بہت متاثر کیا۔ ان مذاہب کی وجہ سے لوگوں کی عادتیں اور رہن سہن بدل گئیں۔ رویوں میں تبدیلی آئی اور علم و عمل میں بھی ان کا اثر رہا۔
ایجادات اور دریافتوں کے زمانے میں تبدیلی اور جدیدیت کوئی نئی بات نہیں۔ کسی معاشرے میں جب کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے یا دریافت ہوتی ہے تو فوراً لوگ اس کو اپنی قوم یا ملک کے لیے فخر اور عزت سمجھتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ وہ اس عمل کو اپنے مذہب اور قوم کے لئے اعزاز کے طور پر متعارف کراتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے معاشرے کے لوگ اِس چیز کو اختیار کرنے میں جیجک کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یوں یہ عمل معاشرتی تقسیم اور تبدیلی کا سبب بنتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لاﺅڈ سپیکر انگریزوں کی ایجاد ہے پہلے پہل مسلمانوں نے اس کو اذان کے لئے استعمال کر نے میں کافی ہچکچاہٹ محسوس کی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس کا استعمال کرنے لگیں۔ چھٹی صدی عیسوی میں مسلمانوں کی ترقی مثالی تھی لیکن یورپ نے ان کے علم و عمل سے بہت فائدہ اٹھایا۔
ہز ہائی نس آغا خان چہارم فرماتے ہیں کہ ”ہم آج ایسے معاشروں کی بات کرتے ہیں جو بیک وقت تکثیری اور پرامن ہیں ایک ایسی منزل مقصود جو اہم ہے لیکن مشکل الحصول بھی۔ یہاں تک کہ استحکام کو جدیدیت کے ساتھ ملانے کے لئے ہماری کوششیں بھی مستقل طور پر خلل انداز رکاوٹوں کا شکار نظر آتی ہے۔ ان میں سے کچھ رکاوٹیں ٹیکنالوجیز سے آتی ہیں۔ انٹرنٹ بلاکس سے بائیو جینیٹکس تک اور دوسری رکاوٹیں مظاہر فطرت سے پھوٹتی ہیں یعنی موسمی کیفیتوں میں تبدیلی وائرسز کا منقلب ہونا۔ تاہم کچھ رکاوٹیں سماجی تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً خاندانی زندگی کے نئے انداز اور لوگوں کا ایک جگے سے دوسری جگہ ہجرت کرنا۔۔۔ مثلاً فرانس اور آسٹریلیا جیسے توانگر ممالک میں سول انتشار، جیسا کہ لوویز پانا میں طوفان، کشمیر میں زلزلہ کی صورت حال، نیوکلیئر توانائی کا استعمال، ڈارفور جیسی جگہوں میں معذوری کا احساس، کرۂ ارض پر ہجوم ہوتا جا رہا ہے اور وسائل کم۔ امیر اور غریب میں خلا وسیع ہوتا جا رہا ہے لوگ برائیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن تبدیلی اگر آتی بھی تو تکلیف دہ حد تک آہستہ اور کھبی کبھار یوں لگتا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف پھسل رہے ہیں“۔ (ایورا یونیورسٹی پرتگال میں سمپوزیم سے خطاب 21 فروری 6002ء)
موجودہ عالمی حالات و واقعات میں معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں 11 ستمبر کا واقعہ ہویا7/7کا نشتر پارک میں عید الاضحیٰ کے مبارک دن دہشت گردی وغیرہ یہ تمام وہ عناصر ہیں جو ہمارے معاشرے میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان واقعات کا فائدہ اٹھا کر طاقتور ممالک اور اقوام اتحادی گروہ تشکیل دے رہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ ایک بار پھر تقسیم کا شکار ہونے لگا ہے۔ D/8ہو یا G/8، آسیان ہو یا او آئی سی، شنگھائی تنظیم ہویا نیٹو یہ تمام وہ گروہ ہیں جو اس معاشرے میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور وہ مخصوص مفادات کے حصول میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بدلتے حالات میں دنیا ایک بار پھر سرد جنگ کی جانب دواں دواں ہے۔
تبدیلی اور جدیدیت کے اس تناظر میں مذاہب بھی محفوظ نہیں۔ میڈیا، جغرافیائی حالات، سیاسی اتار چڑھاﺅ، معیشت اور تعلیمی نظام بھی مذاہب عالم پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنی اپنی صفوں میں پھر سے اتحاد پیدا کر رہے ہیں۔ ان تمام مذاہب کے راہنما نئے نئے ذمہ داریوں کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ تبلیغ کے پرانے طریقے بدل رہے ہیں اور نئے طریقے متعارف ہو رہے ہیں۔ آن لائن بحث و مباحثے کی وجہ سے نوجوانوں میں مختلف سوالات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ تاریخ کا یہ المیہ یونانی، رومی، عیسائی، یہودی، مسلمان، اور زرتشتیوں کے نظریات کے تصادم کے نتیجے میں ابھرا تھا(قرون وسطیٰ میں) اور اب بھی عالمی میڈیا کے یہ بڑے موضوعات ہیں۔
سموئل ہنٹگٹن کے بقول مغرب میں ان حالات میں اور جدیدیت کی وجہ سے بہت اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن میں کلاسیکی ترکہ، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کا وجود، یورپی زبانیں، دینی و دنیاوی اختیارات کا الگ ہونا، حکومتیں اور قانون سازی، سماجی تکثیریت، نمائندہ جماعتیں اور خاص طور پر انفرادیت انہی معاشرتی عوامل اور دیگر تہذیبوں کے تاریخی پس منظر کے مطالعے کے بعد موصوف نے ان حالات و واقعات کو تہذیبوں کا تصادم قرار دیا ہے۔ ایک مغربی ہم عصر اسکالر کرن ارم سڑانگ بھی اپنی کتاب ’خدا کے لیے جنگ، میں ان حالات کو بنیاد پرستی قرار دیتی ہیں۔ مولانا حاضر امام اپنے تقاریر اور مباحث میں ان حالات کو تہذیبوں کا تصادم نہیں بلکہ جہالت کا تصادم کہتے ہیں کیونکہ قومیں ایک دوسرے کو نہ جاننے کی وجہ سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں ٹکراؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
مشرق میں خاص کر اسلام میں روشن خیالی، جدیدیت اور تبدیلی کے موضوعات گزشتہ چند سالوں کی پیداوار نہیں بلکہ ایک عرصے سے یہ مباحثوں اور تذکروں کا سبب بنے ہیں۔ علما، دانشور، حکمران، اور اخبارات ان معاملات پر برملا بولتے رہتے ہیں۔ ہمیں ان حالات میں ان اصطلاحات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ خود سمجھ کر اپنی قوم کو بھی سمجھا سکیں۔ ان حالات میں چند تجاویز بھی دئیے جاتے ہیں؛
٭ تکثیری ماحول کا قیام اور اس کا احترام
٭ گوناگونیت اور مختلفیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے اقدار پر عمل
٭ سول سوسائٹی کا قیام اور ہر ایک کا ان میں کردار
٭ تعلیمی نظام کی درستگی اور متوازن نظام تعلیم کو اجاگر کرنا
٭ اسلامی اقدار، روایات، رویّوں اور تعلیمات کی تجدید
٭ طاقتور میڈیا کا قیام اور ان کی بقا کے لئے تعاون تاکہ ہم بھی دنیا کے سامنے اپنے عقائد و رسومات کی نمائندگی کر سکیں۔
حوالہ جات:
٭ قرآن پاک
٭ اسلام اور جدیدیت از ڈاکٹر فضل الرحمٰن
٭ تہذیبوں کا تصادم اور ورلڈ آڈر از پی۔ سمائل ہنٹنگٹن
٭ میڈیا اور اخبارات
٭ ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان کی تقاریر
٭ خدا کے لئے جنگ از کرن ارم سٹرنگ
No comments:
Post a Comment