|
پروفیسر نذیر احمد ملک شعبۂ اُردو، کشمیر یونیورسٹی،سرینگر تین جغرافیائی خطوں پر مشتمل ریاست جموں وکشمیر کا قیام مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور ِ حکومت میں اس وقت عمل میں آیا جب ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ میں امرتسر معاہدے کے تحت اُنہوں نے انگریزوں سے جموں اور کشمری کے صوبوں پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل کیا۔لداخ کا علاقہ پہلے ہی اُن کی تحویل میں تھا۔ڈوگروں کی یہ حکومت ایک صدی سے بھی زائد عرصے تک قائم رہی۔ ڈوگرہ دور ِ حکومت میں ریاست کا بیشتر سرکاری کام فارسی زبان میں انجام پذیر ہوتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ڈوگری کی سرپرستی بھی کی جا رہی تھی۔لیکن انیسویں صدی میں شمالی ہندوستان میں اُردو کے عُروج اور فارسی کی انحطاط پذیر صورت ِ حال کا ثر ڈوگروں کی لسانی حکمت ِ عملی پر بھی پڑا۔مزید ڈوگروں کے شمالی ہندوستان کے درباروں کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ ہندوستان کے شمالی علاقوں سے مختلف امور کے سلسلے میں جو لوگ جموں آتے تھے، وہ اُردو میں ہی بات چیت کرتے تھے۔ ڈوگری ،پنجابی سے گہرا لسانی رشتہ رکھنے کی بنا پر اُردو سے بھی بہت قریب تھی۔چنانچہ اہل ِ جموں کو اُردو سیکھنے میں زیادہ دِقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے کہ اُردو کا پنجابی لہجہ ڈوگروں کے لئے نامانوس نہیں تھا۔چنانچہ رنبی سنگھ کے دور ِ حکومت ۱۸۵۷۔۱۸۸۵ سے ہی جموں میں اُردو کے لئے سازگار ماحول قائم ہونے لگا تھا۔اُن کے دربار سے وابستہ علمائ اور فضلا اُردو سے واقف تھے۔اِن میں دیوان کرپا رام سنگھ،غوث محمد ہوشیار پوری،پنڈت رام کرشن وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔ریاست بالخصوص جموں میں اُردو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،ریاست کی لسانی تقسیم اور شمالی ہندوستان سے تہذیبی، تجارتی اور لسانی رابطوں کے پیش ِ نظر مہاراجا رنبیر سنگھ کے جانشین مہاراجہ پرتاب سنگھ۔۱۸۸۵ تا ۱۹۲۵۔ نے ۱۸۱۸۹ میں فارسی کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔اس طرح پوری ریاست میں اُردو زبان کی اشعات اورفروغ کی راہیں کھلنے لگیں۔بیسیویں صدی کے وسط تک ریاست جموں وکشمیر میں تعلیمی، ادبی، صحافتی، سیاسی، غرض ہر سطح پر اُردو زبان کا ایک اہم اور واضح رول متعین ہو چکا تھا۔ اور اس نے ریاست کی مختلف اکائیوں کے درمیان لنگواا فراینکا کا درجہ بھی حاصل کیا تھا۔چنانچہ جب ۱۹۵۶ میں ریاست کا آئین منظور کیا گیا تو ریاستی قانون ساز اسمبلی نے اُردو کی غیر معمولی عوامی مقبولیت کے پیش َ نظر اس کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی توثیق کیْ اُسی سال ہندوستان میں ریاستوں کی تقسیم بھی لسانی بنیادوں پر کی گئی۔ ریاست جموں وکشمیر چونکہ ایک کثیر لسانی علاقہ ہے اور یہاں بولی جانے والی تمام زبانیں اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔ نیز اُن کا دائرۂ اثر دُوسرے علاقوں تک نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے اس ایک علاقے کو دوسرے علاقوں پر لسانی اور سیاسی برتری حاصل نہ ہو، ایک بہتر منصوبے کے تحت اُردو زبان کو اس منصب سے سرفراز کیا گیا لیکن انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش بھی واضح طور پرترکھی گئی۔اس سلسلہ میں ریاستی آئین کی دفعہ ۱۴۵ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں: “The official language of the state shall be Urdu but the English language shall unless the Legislature by law provides, continue to be used for all the official purposes of the state for which it was being used immediately before the commencement of this constitution.” ********** ریاستی عدلیہ میں زبان کے استعمال کے سلسلہ میں دفعہ ۸۷ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں ********** “1.Business in the Legislature shall be transacted in Urdu or in English. Provided that the speaker of the Legislature Council or person acting as such as the case may be, may permit any member to address the house in Hindi, or if he can not adequately express himself in any of the aforesaid languages, to address the house in his mother tongue. 2.The official record of the proceedings in the Legislature shall be kept in Urdu as well as in English. 3.The text of all th bills and amendments there of moved in and of all Acts passed by the Legislature which shall be treated as authoritative shall be English” آئین کے چھٹے شڈیول میں کشمیری، ڈوگری،بلتی،دردی،پنجابی،پہاڑی لداخی کو علاقائی زبانوں کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اِن تمام زبانوں بشمول اُردو اور ہندی کی ترقی اور اشاعت کے لئے دفعہ ۱۹۶ کے تحت جموں وکشمیر آکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز قائم کرنے کی سفارش اس طرح کی گئی ہے۔ ****** “ The Governor shall, as soon as may be, after the commencement of the constitution establish an Academy of Art, Culture and Languages where opportunities will be afforded for the development of Art and Culture of the state and for the development of the Hindi, Urdu and other regional languages of the state specified in the sixth schedule.” چنانچہ ۱۹۵۸ کو اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کسی بھی کثیر السانی ملک، ریاست یا علاقے میں وہاں کی ایک یا کئی زبانوں کو سرکاری درجہ دینے سے فطری طور پر کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کو کبھی کبھی خطرناک صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ سرکاری درجہ ملنے سے ایک زبان اور اس کے بولنے والوں کی ہر طرح سے توقیر بڑھ جاتی ہے۔بالخصوص سیاسی اقتصادی زندگی میں ان کی شمولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔نتیجتاً سماجی زندگی کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی حالات میں ایک’نیوٹرل‘ یا ناوابستہ زبان کو ہی سرکاری درجے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔تاکہ کوئی بھی مقامی لسانی گروہ کسی طرح کے احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ریاست جموں وکشمیر میں اُردو کسی علاقے کی مادری زبان نہیں لیکن یہ زبان اہل ِ ریاست کے لئے اجنبی بھی نہیں ہے۔اس لئے اس کو سرکاری زبان اختیار کرنے میں اہل ِ اختیار نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اس کے ساتھ انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش رکھنا بھی اُن کی دور اندیشی کا مظہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تہذیبی، نسلی اور لسانی افراق عموماً ملک کی ہمہ گیر ترقی کے لئے رکاوٹ کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس طرح کی صورت ِ حال میں بہتر اور وسیع کمیونی کیشن کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی کثیر السانی ملک، ریاست یا علاقے میں وہاں کی ایک یا کئی زبانوں کو سرکاری درجہ دینے سے فطری طور پر کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کو کبھی کبھی خطرناک صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ سرکاری درجہ ملنے سے ایک زبان اور اس کے بولنے والوں کی ہر طرح سے توقیر بڑھ جاتی ہے۔بالخصوص سیاسی اقتصادی زندگی میں ان کی شمولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔نتیجتاً سماجی زندگی کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی حالات میں ایک’نیوٹرل‘ یا ناوابستہ زبان کو ہی سرکاری درجے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔تاکہ کوئی بھی مقامی لسانی گروہ کسی طرح کے احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ریاست جموں وکشمیر میں اُردو کسی علاقے کی مادری زبان نہیں لیکن یہ زبان اہل ِ ریاست کے لئے اجنبی بھی نہیں ہے۔اس لئے اس کو سرکاری زبان اختیار کرنے میں اہل ِ اختیار نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اس کے ساتھ انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش رکھنا بھی اُن کی دور اندیشی کا مظہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تہذیبی، نسلی اور لسانی افراق عموماً ملک کی ہمہ گیر ترقی کے لئے رکاوٹ کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس طرح کی صورت ِ حال میں بہتر اور وسیع کمیونی کیشن کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصب کے جذبات بھڑک جاتے ہیں اور سرکاری مشینری کی توجہ ترقی کی رفتار تیز کرنے کے بجائے قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی طردف مرکوز ہو جاتی ہے۔اس طرح کے ملکی حالات میں نیچرل زبان کی سرپرستی اور تشہیر ہمیشہ ملکی اور قومی مفادات کے حق میں ہوتی ہے۔اس کے برعکس ایک علاقائی زبان کو ترجیحی بنیاد فراہم کرنے سے Internal Colonalization کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جس کو سیاسی قائدین اپنے حقیر مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال میں لا سکتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جامع اور ہمہ گیر کمیونی کیشن ،اقتصادی ترقی کی دلیل ہوتی ہے اور بہتر کمیونی کیشن کے لئے ایک زبان کی قبولیت سے اہم اور کار گر وسیلہ ہے۔لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس طرح کے اقدام سے علاقائی زبانوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی ترویج اور تشہیر حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہو جاتی بلکہ ان حالات میں سرکار کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں اور حکومت کے لئے ایک واضح لسانی پالیسی مرتب کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔جس کے تحت سرکاری اور علاقائی زبانوں کے رول کو بھی متعین کرنا پڑتا ہے۔ |
Saturday, 27 December 2014
ریاست جموں وکشمیر میں اُردو بحیثیت سرکاری زبان
Subscribe to:
Post Comments (Atom)

No comments:
Post a Comment