Saturday, 27 December 2014

فورٹ ولیم کالج کی اردو خدمات

 

 شجاعت علی سندیلوی

 

آسان اور عام فہم اردو نثر کے آغاز اورارتقا میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات کواولیت بھی حاصل ہے اور اہمیت بھی۔ یہ کالج ۰۰۸۱ءمیں اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں نووارد انگریزوں کو یہاں کی زبان اور معاشرت سے واقفیت ہوجائے کیونکہ: ”برطانوی قوم کے مقدس فرض، ان کے حقیقی مفاد، ان کی عزت اوران کی حکمت عملی کا اب یہ تقاضا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی سلطنت کے حدود میں عمدہ عمل داری قائم کرنے کے لئے مناسب اقدام کئے جائیں۔“اور عمدہ عمل داری قائم کرنے کےلئے لارڈ ویلز نے سب سے اہم اور مفید کام فورٹ ولیم کالج کاقیام سمجھا، اس نے تعلیم کا ایک وسیع منصوبہ بنایا اور نصاب تعلیم میں ریاضی ، تاریخ ، جغرافیہ ، سائنس، معاشیات ، مغربی اور مشرقی زبانیں ، قوانین وغیرہ کو داخل کیا اور ان کے لئے علاحدہ علاحدہ پروفیسر مقرر کئے۔ ہندوستانی زبان کے شعبہ کا صدر، مشہور مستشرق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جان گلکرسٹ کو مقرر کیا گیا۔

 

گلکرسٹ کو ہندوستانی زبان (اردو) سے خاص لگاﺅ تھا درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا تجربہ ، فورٹ ولیم کالج میںآنے سے پہلے ہی ہوچکا تھا۔ وہ ہندوستانی (اردو) زبان کو ہندوستان گیر سمجھتا تھا۔ ملازمت کے سلسلے میں مختلف مقامات پر جانے اور رہنے کے بعد وہ لکھتا ہے:

 

”جس گاﺅں اورجس شہر سے میرا گزر ہوا وہاں اس زبان کی مقبولیت کی جو میں سیکھ رہا تھا مجھے ان گنت شہادتیں ملیں۔“

 

ہندوستانی زبان کے شعبہ کی یہ خوش قسمتی سمجھنا چاہئے کہ اس کا سربراہ ایک ایسا شخص تھا جو ہندوستانی زبان اور تعلیم کا ماہر، تصنیف و تالیف کادل دادہ، اردو کی ترقی و ترویج کا شائق ،علم دوست تجربہ کار، دانش ور اور دانش مند تھا

 

بابائے اردو ڈاکٹر عبد الحق کے الفاظ میں:

 

”بلا مبالغہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو احسان دلی نے اردو شاعری پرکیا تھا اس سے زیادہ نہیں تواسی قدر احسان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے۔“

 

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ گلکرسٹ کی بدولت فورٹ ولیم کالج اور اس کا ہندوستانی شعبہ اردو کی لسانی اور ادبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔گلکرسٹ مشکل سے چار برس تک ہندوستانی شعبہ کا صدر رہا اس قلیل مدت میں اس نے شعبہ کو بڑی ترقی دی۔ درس و تدریس کے علاوہ اس نے تصنیف و تالیف کا باقاعدہ کام شروع کر دیا۔ اس مقصد کے لئے اس نے اپنے شعبہ میں مصنفین، مترجمین کی تقرری کی۔ منشی اور ماتحت منشی بھی رکھے ، چھاپہ خانہ کھولا ،اردوٹائپ سے طباعت شروع کی ،عام اور بے پڑھے لکھے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے اور نووارد انگریزوں کو اردو کالب و لہجہ ، تلفظ سمجھانے کے لئے قصہ خواں مقرر کئے جو دلچسپ قصے سناکر اردو بولنے اور پڑھنے کے لئے رغبت دلاتے تھے۔ ہندوستانی مصنفین کو ان کی بہترین تصنیف پر انعام دیئے جانے کی کالج کونسل سے سفارش کرکے انعام دلایا۔ ایسے مصنفین کو بھی انعام دلایا جوکالج سے وابستہ نہیں تھے۔ کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دیئے جانے کی راہ نکالی، کتابوں کے فروخت کرنے کا پروگرام بنایا۔ ہندوستانی شعبے میں، اس عہد کے نامور اردو، ہندی ادیبوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ میر بہار علی حسینی، میر امن، غلام غوث، میر حیدر بخش حیدری، تارنی چرن متر کندن لال، کاشی راج وغیرہ ۴۱ حضرات کا تقرر کیا گیا۔ میر بہادر علی حسینی چیف منشی اور تارنی چرن مترا سکنڈ بالترتیب دو سو اور سو روپئے ماہوار اور بقیہ منشی ۰۴ روپیہ ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ جیسے جیسے اردو شعبہ کاکام بڑھتا گیا اورطلباءکی تعداد میںاضافہ ہوتا گیا۔ مزید منشیوں کا تقرر ہوتا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک خوش نویس ، ایک ناگری نویس ، ایک بھاکا منشی اور ایک قصہ خواں کی بھی خدمات حاصل کی گئیں ۔طالب علموں کو کالج کے اوقات کے علاوہ تعلیم دینے کے لئے سندی منشی بھی مقرر کئے گئے جن کے اخراجات طالب علم ہی برداشت کر تے تھے۔اس طرح ۲۰۸۱ میں ہندوستانی شعبے کے عملے کی تعداد ۸۴ تک پہونچ گئی تھی جن میں شیر علی افسوس، مرزا علی لطف، مظہر علی خاں ولا، کاظم علی خاں جوان خلیل خاںاشک، نہال چند لاہوری، بینی نرائن جہاں، مرزا جان طیش، اکرام علی، للو لال جی وغیرہ نے اپنی تصانیف کے ذریعہ سے اردو کی بیش بہا خدمات انجام دیں اور اردونثر کو مقبول عام بنایا۔

 

گلکرسٹ کی کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی شعبہ اور ہندوستانی زبان (اردو) ہر اعتبار سے ترقی کرے، اس کاادب بھی ترقی یافتہ زبانوں کے ادب کی طرح ممتاز درجہ حاصل کرکے خاص وعام میں مقبول ہوجائے اس کوخوب سے خوب تر بنانے کی دھن تھی زبان کی توسیع و اشاعت کے سلسلے میں اس نے کالج کونسل کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا، کونسل نے سنی ان سنی کردی۔ گلکرسٹ کوجب یہ یقین ہوگیا کہ وہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تو ۳۲فروری ۴۰۸۱ءکو اس نے استعفا دے دیا۔ کالج کے ذمہ داروں نے اس کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے استعفیٰ منظور کر لیا۔

 

گلکرسٹ کا عہد ، ہندوستانی شعبے خصوصاً اردو کے لئے، تصنیف و تالیف اور تعلیم کے اعتبار سے ، انتہائی اہم اور مفید تھا۔ اس کی سر پرستی اوررہنمائی میں، آسان اردو نثر لکھنے کی ابتدا ہوئی،اسی نے اردو کے مشاہیر اہل زبان کی خدمات حاصل کیں اور ان سے ایسی کتابیں لکھوائیں جن میںسے بعض ہمیشہ زندہ رہیں گی۔“ وہ خود بھی صاحب قلم تھا اور اس نے زبان ، قواعد زبان ، اورلغت وغیرہ پراعلیٰ درجہ کی کتابیں لکھیں۔ اس نے ہندوستانی زبان کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے، ان کی کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دینے کی سفارش پر غور کرکے منظور کر لیا اس کے زمانے میںچوالیس کتابوںپرانعامات دیئے گئے۔ گلکرسٹ کی ان کوششوں کا نتیجہ یہ ہواکہ اردو میں مختلف موضوعات پرکتابیں لکھی گئیں یاترجمہ کی جانے لگیں ۔ گلکرسٹ کے چلے جانے کے بعد ان کے جانشینوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔

 

فورٹ ولیم کالج نے اپنے مختصر زمانے میں جو لٹریچر پیدا کردیا اورجتنی کتابیں تصنیف ، تالیف اور ترجمہ کرادیں، پورے ملک میں اتنی کتابیں نہیں لکھی گئیں اور زبان و اسلوب کے لحاظ سے تو ایک کتاب بھی ایسی نہی ہے جو ان کتابوں کی طرح عام فہم اور مفیدہو۔ فورٹ ولیم کالج کے مصنفین سے زیادہ تر ایسی کتابیں لکھوائی گئیں جو عام دلچسپی یعنی، تعلیمی ،اصلاحی، اخلاقی، تاریخی ہوں۔ جن سے ہندوستان کے مذہبی، سماجی، معاشی، حالات معلوم ہوں، زبان عام فہم ،دلچسپ اور رواں ہو۔ اسلوب ،سیدھا سادا اور سلجھاہوا ہو۔ میر امن کے الفاظ میں کہ گلکرسٹ نے فرمایا: ”قصے کو ٹھیٹ ہندوستانی زبان میں جو اردو کے لوگ ، ہندو، مسلمان، عورت ، مرد ، لڑکے ، بالے، خاص و عام، آپس میں بولتے چالتے ہیں ترجمہ کرو۔ موافق حکم حضور کے میں نے بھی اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔ “

 

فورٹ ولیم کالج کی کتابوں میں سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت ، میر امن کی اسی کتاب کو نصیب ہوئی، متعدد غیر ملکی زبانوں ، انگریزی، فرانسیسی، پر تگالی، لاطینی میں ترجمے ہوئے۔ میر امن کی زبان دلی کی ٹکسالی زبان ہے ، روز مرہ اور محاورہ کی چاشنی بیان کی سادگی و دلکشی ، منظر نگاری ، قومی و ملکی خصوصیات نے، باغ و بہار کو سدابہار بنادیا ہے ،باغ و بہار کے بعد میر امن نے دوسری کتاب گنج خوبی لکھی لیکن اس کو باغ و بہار جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔

 

میر امن کے علاوہ چند دوسرے مشہور لکھنے والے اور ان کی مقبول اور اہم کتابیں حسب ذیل ہیں: حیدر بخش حیدری (آرائش محفل، گلزار دانش اور شعرائے اردو کا تذکرہ گلشن ہند) مظہر علی خاں ولا (سنت گلشن ۔ تاریخ شیر شاہی) میر بہادر علی حسینی (اخلاق ہندی) مرزا علی لطف (تذکرہ گلشن ہند)میر شیر علی افسوس (باغ اردو) میرزا کاظم علی جوان (شکنتلا ڈرامہ) خلیل خاں اشک (داستان امیر حمزہ)نہال چند لاہوری (مذہب عشق) بینی نرائن جہاں (دیوان جہاں۔اردو شعراءکا تذکرہ) للو لال جی (سنگھاسن بتیسی)

 

ان چند کتابوں سے ہی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے مختصر مدت میں اردو کی ترقی اور ترویج کے لئے جو گراں قدر خدمات انجام دیں، وہ ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔پونے دو سو برس سے زیادہ زمانہ گزر جانے کے باوجود فورٹ ولیم کالج کی بیش تر کتابیں آج بھی زبان و بیان کی شیرینی و دل کشی میںاپنا جواب نہیں رکھتیں۔

 

فورٹ ولیم کالج کی اردو خدمات کااختصار یہ ہے

 

(۱)

 

فورٹ ولیم کالج ، غیر ملکیوںکا پہلا کالج ہے جس نے ہندوستانی زبان کی تعلیم و ترقی ،ترویج و اشاعت کی طرف توجہ دی اور اس غرض سے اس نے ہندوستانی زبان کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا۔

 

(۲)

 

ہندوستانی زبان کے مشہور ادیبوں کی خدمات حاصل کیں اور ان

 

سے کتابیں لکھوائیں۔

 

(۳)

 

دوسری زبانوں کی کتابوں کے تراجم کرنے کا اہتمام کیا۔

 

(۴)

 

کتابوں کی طباعت و اشاعت کے لئے پریس قائم کیا اورٹائپ سے چھپائی کاانتظام کیا۔

 

(۵)

 

کالج نے قصے کہانیوں کی کتابوں کے علاوہ دوسرے مفید اور دلچسپ موضوع کی بھی کتابیں۔ (قواعد ) لغت ،تاریخ، تذکرہ، مذہب ،اخلاق وغیرہ لکھوائیں۔

 

(۶)

 

عمدہ کتابوں پر انعامات دینے اور کتابوں کی طباعت کے لئے امداد دینے کا آغاز کیا۔

 

(۷)

 

اردو نثر کو سلیس ، عام فہم بنانے پر خاص توجہ دی۔ سچ تو یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کو، زندگی ، توانائی ،عطا کی اور اسی کی بدولت آسان نثر نگاری کا رواج ہوا۔

 

(۸)

 

ہندوستان میں یہ پہلا علمی و ادبی ادارہ تھا جس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کوبھی اپنا نصب العین بنایا۔

 

(۹)

 

فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کے ایسے اعلیٰ نمونے پیش کئے اور اتنی بے مثل کتابیں لکھوائیں کہ جن سے اردو ادب کے سرمائے میں قابل قدر اضافہ ہوا۔

 

فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات

 

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انگریزوں نے یہ کالج سیاسی مصلحتوں کے تحت قائم کیا تھا۔ تاکہ انگریز یہاں کی زبان سیکھ کر رسم و رواج سے واقف ہو کر اہل ہند پر مضبوطی سے حکومت کر سکیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فورٹ ولیم کالج شمالی ہند کا وہ پہلا ادبی اور تعلیمی ادارہ ہے جہاں اجتماعی حیثیت سے ایک واضح مقصد اور منظم ضابطہ کے تحت ایسا کام ہوا جس سے اردو زبان و ادب کی بڑ ی خدمت ہوئی۔

 

اس کالج کے ماتحت جو علمی و ادبی تخلیقات ہوئیں جہاں وہ ایک طرف علمی و ادبی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں تو دوسری طرف ان کی اہمیت و افادیت اس بناءپر بھی ہے کہ ان تخلیقات نے اردو زبان و ادب کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل میں بڑا حصہ لیا۔خصوصاً ان تخلیقات نے اردو نثر اور روش کو ایک نئی راہ پر ڈالا۔

 

فورٹ ولیم کالج کے قیام سے قبل اردو زبان کا نثری ذخیرہ بہت محدودتھا۔ اردو نثر میں جو چند کتابیں لکھی گئی تھیں ان کی زبان مشکل ، ثقیل اوربوجھل تھی۔ رشتہ معنی کی تلاش جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہ تھی۔ فارسی اثرات کے زیراثر اسلوب نگارش تکلف اور تصنع سے بھر پور تھا۔ ہر لکھنے والا اپنی قابلیت جتانے اور اپنے علم و فضل کے اظہار کے لئے موٹے موٹے اور مشکل الفاظ ڈھونڈ کر لاتا تھا۔ لیکن فورٹ کالج کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے اردو نثر کو اس پر تکلف انداز تحریر کے خارزار سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی۔ سادگی ، روانی ، بول چال اور انداز ، معاشرے کی عکاسی وغیرہ اس کالج کے مصنفین کی تحریروں کا نمایاں وصف ہے۔

 

فورٹ ولیم کالج کی بدولت تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ ترجمے کی اہمیت بھی واضح ہوئی ۔ منظم طور پر ترجموں کی مساعی سے اردو نثر میں ترجم HGJوں کی روایت کا آغاز ہوا اور انیسویں اور بیسویں صدی میں اردو نثر میں ترجمہ کرنے کی جتنی تحریکیں شروع ہوئیں ان کے پس پردہ فورٹ ولیم کا اثر کار فرما رہا۔

 

فورٹ ولیم کالج کی بدولت تصنیف و تالیف کے کام میں موضوع کی افادیت اور اہمیت کے علاوہ اسلوب بیان کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی ۔ یہ محسوس کیا گیا جس قدر موضوع اہمیت کا حامل ہے اسی قدر اسلوب بیان ، اسلوب بیان کی سادگی، سلاست اور زبان کا اردو روزمرہ کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ تاکہ قاری بات کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مطالب کو سادہ ، آسان اور عام فہم زبان میں بیان کیاجائے ۔

 

فورٹ ولیم کالج کے مصنفین کی مساعی کی بدولت اردو زبان بھی ایک بلند سطح پر پہنچی ۔ فورٹ ولیم کالج کی اردو تصانیف سے قبل اردو زبان یا تو پر تکلف داستان سرائی تک محدود تھی یا پھر اسے مذہبی اور اخلاقی تبلیغ کی زبان تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن فورٹ ولیم کالج میں لکھی جانے والی کتابوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان میں اتنی وسعت اور صلاحیت ہے کہ اس میں تاریخ ، جغرافیہ ، سائنس ، داستان ، تذکرے ، غرضیکہ ہر موضوع اور مضمون کو آسانی سے بیان کے جا سکتا ہے۔

 

یادگار غالب


شمس العلما خواجہ الطاف حسین حالی


تیرھویں صدی ہجری میں جب کہ مسلمانوں کا تنزل غایت درجہ کو پہنچ چکا تھا اور ان کی دولت، عزت اور حکومت کے ساتھ علم و فضل اور کمالات بھی رخصت ہو چکے تھے، حسن اتفاق سے دارلخلافہ دلی میں چند اہل کمال ایسے جمع ہوگئے تھے جن کی صحبتیں اور جلسے عہد اکبری و شاہجہانی کی صحبتوں اور جلسوں کو یاد دلاتی تھیں۔ اور جن میں سے بعض کی نسبت مرزا غالب مرحوم فرماتے ہیں؛

ہند را خوش نفسانند سخنور کہ بود
باددرخلوت شاں مشک فشاں ازدم شاں
مومن و نیر و صہبائی و علوی، وانگاہ
حسرتی اشرف و ازردہ بود اعظم شاں

اگرچہ جس زمانے میں راقم کا پہلی بار دلی جانا ہوا، اس باغ میں پت جھڑ شروع ہو گئی تھی؛ کچھ لوگ دلی سے باہر چلے گئے اور کچھ دنیا سے رخصت ہو گئے تھے، مگر جو باقی تھے اور جن کو دیکھنے کا مجھے فخر رہے گا، وہ بھی ایسے تھے نہ صرف دلی سے، بلکہ ہندوستان کی خاک سے بھی ویسا اٹھتا نظر نہیں آتا، کیونکہ جس سانچے میں وہ ڈھلے تھے، وہ سانچا بدل گیا اور جس آب و ہوا میں انہوں نے نشو ونما پائی تھی، وہ ہوا پلٹ گئی؛

زمانہ دگرگونہ آیین نہاد
شد آں مرغ کو نیضہ زریں نہاد

علی الخصوص مرزا اسد اللہ خان غالب جن کی عظمت و شان اس سے بالا تر تھی کہ ان کو بارہویں یا تیرہویں صدی ہجری کے شاعروں یا انشاپردازوں میں شمار کیا جائے۔

مرزا نے اپنی کتاب مہر نیمروز میں ایک موقع پر بہادر شاہ ظفر کی طرف خطاب کرکے یہ ظاہر کیا ہے کہ “شاہجہاں کے عہد میں کلیم شاعر سیم و زر میں تولا گیا تھا؛ مگر میں صرف اس قدر چاہتا ہوں کہ اور کچھ نہیں، تو میرا کلام ہی ایک دفعہ کلیم کے کلام کے ساتھ تول لیا جائے“۔ اس مضمون کو، جو لوگ مرزا کے رتبہ سے واقف نہیں، شاید خود ستائی اور تعلی پر محمول کریں گے؛ مگر ہمارے نزدیک مرزا نے اس میں کچھ بھی مبالغہ نہیں کیا؛ بلکہ وہی کہا ہے جو ان کے زمانے کے اہل نظر اور اہل تمیز ان کی نسبت رائے رکھتے تھے۔

اگرچہ زمان ےنے اپنی بساط کے موافق مرزا کی کچھ کم قدر نہیں کی، ان کا تمام کلام، اردو، فارسی، نظم اور نثر ان کے جیتے ہی جی ہندوستان میں پھیل گیا تھا۔ ان کے ماننے والے اور مداح و ثنا خواں ملک کے ہر گوشے میں پائے جاتے تھے اور اب تک پائے جاتے ہیں۔ مدحیہ قصائد پر ان کو کم و بیش صلے اور خلعت اور انعامات بھی ملتے رہے۔ مرحوم بہادر شاہ نے بھی اپنی حیثیت کے موافق ان کی خاصی قدر کی۔ ریاست رامپور سے ان کے لیے اخیر دم تک معقول وظیفہ جاری رہا۔ یہ سب کچھ ہوا؛ مگر جب مرزا کے اس اعلی مرتبے کا جو شاعری و انشا پردازی میں فی الواقع انہوں نے حاصل کیا تھا، ٹھیک اندازہ لگایا جاتا ہے تو ناچار یہ کہنا پڑتا ہے کہ زمانے کی یہ تمام قدردانی زیادہ سے زیادہ اس پیرزال کی سی قدر دانی تھی جو ایک سوت کی اٹی سے یوسف کی خریداری کو مصر کے بازار میں آئی تھی۔ سچ یہ ہے کہ مرزا کی قدر جیسی کے چاہیے یا جلال الدین اکبر کرتا، یا جہانگیر و شاہجہان۔ مگر جس قدر اس اخیر دور میں ان کو مانا گیا اس کو بھی نہایت مغتنم سمجھنا چاہیے؛

بکے مفت یاں ہم زمانے کے ہاتھوں
پہ دیکھا، تو تھی یہ بھی قیمت زیادہ

اگرچہ مرزا کی تمام لائف میں کوئی بڑا کام ان کی شاعری اور انشاپردازی کے سوا نظر نہیں آتا، مگر صرف ایک اسی کام نے ان کی لائف کو دارلخلافے کے اس اخیر دور کا ایک مہتم بالشان واقعہ بنا دیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اس ملک میں مرزا پر فارسی نظم و نثر کا خاتم ہو گیا، اور اردو نظم و نثر پر بھی ان کا کچھ کم احسان نہیں ہے۔ اس لیے کبھی کبھی مجھ کو اس بات کا خیال آتا تھا کہ مرزا کی زندگی کے عام حالات جس قدر کہ معتبر ذریعوں سے معلوم ہو سکیں اور ان کی شاعری و انشاپردازی کے متعلق جو امور کے احاطہ بیان میں آ سکیں اور ابنائے زماں کے فہم سے بالا تر نہ ہوں، ان کو اپنے سلیقے کے موافق قلم بند کروں۔

پچھلے برسوںمیں جبکہ میں دلی میں مقیم تھا، بعض احباب کی تحریک سے اس خیال کو اور زیادہ تقویت ہوئی۔ میں نے مرزا کی تصنیفات کو دوستوں سے مستعار لے کر جمع کیا، اور جس قدر اس میں ان کے حالات اور اخلاق و عادات کا سراغ ملا، ان کو قلم بند کیا، اور جو باتیں اپنے ذہن میں محفوظ تھیں یا دوستوں کی زبانی معلوم ہوئیں، ان کو بھی ضبط تحریر میں لایا۔ مگر ابھی ترتیب مضامین کی نوبت نہ پہنچی تھی کہ اور کاموں میں مصروف ہوگیا، اور کئی برس تک وہ یادداشتیں کاغذ کے مٹھوں میں بندہی ہوئی رکھی رہیں۔

ان دنوں میں دوستوں کا پھر تقاضہ اور بہت سخت تقاضہ ہوا اور باوجودیکہ میں ایک نہایت اور اہم اور ضروری کام میں مصروف تھا، دوستوں کے تقاضے نے یہاں تک مجبور کیا کہ اس ضروری کام کو چند روز کے لیے ملتوی کرنا پڑا اور یہ خیال کیا گیا کہ جو یادداشتیں مرزا کی لائف کے متعلق بڑی کوشش سے جمع کی گئی ہیں اور جو تھوڑی سی توجہ سے مرتب ہو سکتی ہیں، ان کو اب زیادہ حالت منتظرہ میں رکھنا مناسب نہیں۔

میں نے ان مٹھوں کو کھولا اور ان یادداشتوں کے مرتب کرنے کا ارادہ کیا؛ مگر ان کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ مرزا کی تصنیفات پرپھر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہوگی اور اس کے سوا کچھ اور کتابیں بھی درکار ہوں گی۔ میں نے دل کے بعض دوستوں اور بزرگوں کو لکھا اور انہوں نے مہربانی فرما کر میری تمام مطلوبہ کتابیں اور جس قدر مرزا کے حالات ان کو معلوم ہو سکے، لکھ کر میرے پاس بھیج دیے اور اس طرح مرزا کی لائف جہاں تک کہ اس کی تکمیل ہو سکتی تھی، مکمل کی گئی۔

میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ مرزا کی لائف میں کوئی مہتم بالشان واقعہ ان کی شاعری و انشا پردازی کے سوا نظر نہیں آتا۔ لہذا جس قدر واقعات ان کی لائف کے متعلق اس کتاب میں مذکور ہیں، ان کو ضمنی و اسطرادی سمجھنا چاہیے۔ اصل مقصود اس کتاب کے لکھنے سے شاعری کے اس عجیب و غریب ملکےکا لوگوں پر ظاہر کرنا ہے جو خدا تعالی نے مرزا کی فطرت میں ودیعت کیا تھا، اور جو کبھی نظم و نثر کے پیرایے میں، کبھی ظرافت اور بذلہ سنجی کے روپ میں، کبھی عشق بازی اور رند مشربی کے لباس میں، اور کبھی تصوف اور حب اہل بیت کی صورت میں ظہور کرتا تھا۔ پس جو ذکر ان چاروں باتوں سے علاقہ نہیں رکھتا، اس کو کتاب کے موضوع سے خارج سمجھنا چاہیے۔

لٹریری دنیا میں بہت سے صاحب کمال ایسے گزرے ہیں جن کے زمانے میں ان کی قدر و منزلت کا پورا پورا اندازہ نہیں کیا گیا، مگر آخر کار ان کا کمال ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہا۔ سعدی کے زمانے میں اس کے اکثر ہمعصر امامی ہروی کو اس پر ترجیح دیتے تھے۔ مگر کچھ بہت عرصہ نہ گزرا تھا کہ سعدی کا نام اور اس کا کلام اطراف عالم میں منتشر ہو گیا اور امامی کا کلام صرف تذکروں میں باقی رہ گیا۔ شکسپیر کے عہد میں اس کو ایک ایکٹر سے زیادہ رتبہ نہیں دیا گیا، مگر آج اسی شکسپیر کے ورکس بائبل کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں۔ خود مرزا بھی اپنے کلام کی نسبت ایسا ہی خیال رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک فارسی غزل میں فرماتے ہیں؛

تاز دیوانم کہ سرمست سخن خواہد شدن
ایں مے از قحط داری کہن خواہد شدن
کوکبم را در عدم اوج قبولی بودہ است
شہرت شعرم بہ گیتی بعد من خواہد شدن

اگرچہ اس لحاظ سے کہ ایشیائی شاعری کا مذاق یورپین سولزیشن میں روز بروز جذب ہوتا جاتا ہے اور فارسی لٹریچر ہندوستان سے ایسا رخصت ہوا ہے کہ بظاہر اس کے مراجعت کرنے کی توقع نہیں رہی، یہ امید رکھنی تو فضول ہے کہ مرزا کی فارسی نظم و نثر اب یا آئندہ زمانے میں مقبول خاص و عام ہوگی، لیکن جو تو بر تو پردے مرزا کی شاعری اور نکتہ پردازی پر ان کی زندگی میں پڑے رہے اور جو اب تک مرتفع نہیں ہوئے، کیا عجب ہے کہ ہماری یا ہمارے بعد کسی دوسرے شخص کی کوشش سے رفع ہو جائیں۔

مرزا کو بحیثیت شاعر پبلک سے روشناس کرنے اور ان کی شاعری کا پایہ لوگوں کی نظر میں جلوہ گر کرن ےکا عمدہ طریقہ ی ہتھا کہ ان کے اصناف کلام میں سے ایک معتد بہ حصہ نقل کیا جاتا۔ ہر صنف میں جو باتیں مرزا کی خصوصیات سے میں، وہ نقل کی جاتیں؛ جو کالم نقل کیا جاتا اس کی لفظی و معنوی خوبیاں، نزاکتیں اور باریکیاں ظاہر کی جاتیں، شعرا کے جس طبقے میں مرزا کو جگہ دینی چاہیے، اس طبقے کے شاعروں کے کلام سے مرزا کے کلام کا موازنہ کیا جاتا۔ ان کی غزل سے مرزا کی غزل کو، قصیدے سے قصیدے کو، اور ای طرح ہر صنف سے اسی صنف کو ٹکرایا جاتا، اور اس طرح مرزا کے پایہ شاعری اور ان کے کلام کی حقیقت سے اہل وطن کو خبردار کیا جاتا۔ مگر یہ طریقہ جس قدر مصنف کے حق میں دشوار گزار تھا، اسی قدر پبلک کےلیے، خاص کر اس زمانے میں غیر مفید بھی تھا۔ اگر ہم اس دشوار گزار منزل کے طے کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے تو ہماری وہی مثل ہوتی کہ “مرغی اپنی جان سے گئی اور کھانے والوں کو مزا نہ آیا۔“

ناچار ہم نے بجائے اس طریقہ مذکورہ کے جو حالت موجودہ میں باوجود دشوار ہونے کے غیر مفید بھی ہے، اس موقع پر ایسا طریقہ اختیار کیا ہے، جو ہمارے لیے سہل تر اور پبلک کے لیے مفید تر معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے دوسرے حصے میں مرزا کے تمام کلام کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے؛ نظم اردو، نثر اردو، نظم فارسی اور نثر فارسی؛ اور اسی ترتیب سے ہر قسم کا تھوڑا تھوڑا انتخاب چار جدا جدا فصلوں میں درج کیا ہے۔ ہر قسم پر اول کچھ مختصر ریمارکس کیے ہیں۔ پھر اس قسم کا انتخاب لکھا گیا ہے۔ اور جو اشعار یا فقرے شرح طلب سمجھے ہیں، ان کی جا بجا شرح کر دی گئی ہے اور اور کہیں کہیں محاسن کلام کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور آخر میں خاص کر ان لوگوں کے لیےجو فارسی لٹریچر کا صحیح مذاق رکھتے ہیں، نمونے کے طور پر مرزا کے کسی قدر فارسی کلام کا موازنہ ایران کے مسلم الثبوت استادوں کے کلام کے ساتھ کرکے دکھایا ہے کہ مرزا نے فارسی لٹریچر میں کس درجے تک کمال بہم پہچایا تھا۔

مذکورہ بالا انتخاب سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ کہ مرزا کے کلام میں جس قدر بلند اور پاکیزہ خیالات تھے وہ سب لے لیے گئے ہیں، اور جو ان سے پست درجے کے خیالات تھے وہ چھوڑ دیے گئے ہیں۔ نہیں، بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس رسالے کی بساط اور وسعت کے موافق، تا بمقدور ہر ایک صنف میں سے کم و بیش ایسا کلام لے لیا گیا ہے، جو اس زمانے کے لوگوں کے مذاق سے بیگانہ اور ان کی فہم سے بعید تر نہ ہو۔ اور باوجود اس کے مؤلف کی نظر میں بھی بوجہ من الوجوہ انتخاب کے قابل ہو۔

اس انتخاب سے جس کو مرزا کے تمام کلام کا نمونہ سمجھنا چاہیے، کئی فائد ےتصور کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ شعر کی سمجھ اور اس کا عمدہ مذاق رکھتے ہیں، ان کو بغیر اس کے تمام کلیات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہو، مرزا کا ہر قسم کا عمدہ کلام ایک جگہ جمع کیا ہو ا مل جائے گا۔ دوسرے جو لوگ مرزا کا کلام اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے، وہ بسبب اس کے کہ ہر مشکل شعر یا فقرے کے معنی حل کر دیے گیے ہیں، مرزا کے خیالات سے بخوبی واقفیت حاصل کر سکیں گے۔ اور دونوں طبقوں کو معلوم ہو جائے کہ مرزا نے قوت متخیلہ اور ملکہ شاعری کس درجے کا پایا تھا۔ اور کس خوبی اور لطافت سے وہ نہایت نازک اور دقیق خیالات کو اردو اور فارسی کی دونوں زبانوں میں ادا کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔

الغرض یہ رسالہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ پہلے حصے میں مرزا کی زندگی کے واقعات جہاں تک معلوم ہو سکے، اور ان کے عادات اور اخلاق و عادات و خیالات کا بیان ہے۔ انہیں حالات کے ضمن میں ان کی خاص خاص نظمیں یا اشعار جو کسی واقعے سے علاقہ رکھتے ہیں اور اوران کے لطائف و نوادر، جن سے مرزا کی طبیعیت کا اصلی جوہر ان کی امیجینیشن کی قوت نہایت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے، اپنے اپنے موقع پر ذکر کیے گئے ہیں۔ دوسرے حصے میں مرزا کے تمام کلام نظم و نثر، اردو اور فارسی کا انتخاب، اور ہر قسم پر جدا جدا ریویو مرزا کی تمام لائف اور ان کی طرز شاعری و انشا پردازی پر لکھا گیا ہے جس کو ساری کتاب کا لب لباب سمجھنا چاہیے۔

اگرچہ مرزا کی لائف، جیسا کہ ہم آئندہ کسی موقع پر بیان کریں گے، ان فائدوں سے خالی نہیں ہے جو ایک بائیو گرافی سے حاصل ہونے چاہییں؛ لیکن اگر ان فائدوں سے قطع نظر کی جائے، تو بھی ایسی زندگی کا بیان جس میں ایک خاص قسم کی زندہ دلی اور شگفتگی کے سوا کچھ نہ ہو، ہماری پژمردہ اور دل مردہ سوسائٹی کے لیے کچھ کم ضروری نہیں ہے۔ اس کے سواہر قوم میں عموماً اور گری ہوئی قوموں میں خصوصاً ایسے عالی فطرت انسان شاذونادر پیدا ہوتے ہیں، جن کی ذات سے اگرچہ قوم کو براہ راست کوئی معتدبہ فائدہ نہ پہنچا ہو، لیکن کسی علم یا صناعت یا لٹریچر میں کوئی حقیقی اضافہ کم و بیش ظہور میں آیا ہو اور سلف کے ذخیرے کچھ نیا سرمایہ شامل ہوا ہو، ایسے لوگوں کی لائف پر غور کرنا، ان کے ورکس کی چھان بین کرنا اور ان کے نوادر افکار سے مستفید ہونا قوم کے ان فرائض میں سے ہے، جن سے غافل رہنا قوم کے لیے نہایت افسوس کی بات ہے، جیسا کہ خود مرزا ایک جگہ لکھتے ہیں؛
حیف کہ ابنائے روزگار حسن گفتار مرا نشناختند۔ مرا خود دل آنان می سوزد کہ کامیاب شناسائے فرّہ ایزدی نگشتند، وازیں نمایشہائے نظر فروز کہ درنظم و نثر بکار بردہ ام، سرگراں کز شتند۔
آغاز کتاب

تاریخ ولادت ؛ مرزا اسد اللہ خان غالب المعروف بہ میرزا نوشہ، المخاطب بہ نجم اللہ، دبیرالملک، اسداللہ خان بہادر نظام جنگ، المتخلص بہ غالب در فارسی و اسد در ریختہ، شب ہشتم ماہ رجب ١٢١٢ ہجری کو شہر آگرہ میں پیدا ہوئے۔

خاندان؛ مرزا کے خاندان اور اصل و گوہر کا حال، جیسا کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں جا بجا ظاہر کیا ہے، یہ ہے کہ ان کے آباواجداد ایبک قوم کے ترک تھے اور ان کا سلسلہ، نسب تور ابن فریدون تک پہنچتا ہے۔ جب کیانی تمام ایران و توران پر مسلط ہو گئے اور تورانیوں کا جاہ و جلال اس دنیا سے رخصت ہو گیا تو ایک مدت دراز تک تو کی نسل ملک و دولت سے بے نصیب رہی مگر تلوار کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹی، کیونکہ ترکوں میں قدیم سے یہ قاعدہ چلا آتا تھا کہ باپ کے متروکہ میں سے بیٹے کو تلوار کے سوا اور کچھ نہ ملتا تھا؛ اور کل مال و اسباب اور گھر بار بیٹی کے حصے میں آتا تھا۔ بارے ایک مدت کے بعد اسلام کے عہد میں اسی تلوار کی بدولت ترکوں کے بخت خفتہ نے پھر کروٹ بدلی اور سلجوقی خاندان میں ایک زبردست سلطنت کی بنیاد قائم ہو گئی۔ کئی سو برس میں وہ تمام ایران و توران و شام و روم (یعنی ایشیائے کوچک) پر حکمران رہے۔ آخر ایک مدت کے بعد سلجوقیوں کی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور سلجوق کی اولاد جا بجا منتشر و پراگندہ ہو گئی۔ انہیں میں سے ترسم خان نامی ایک امیرزادے نے سمرقند میں بودوباش اختیار کر لی تھی۔ مرزا کے دادا جو شاہ عالم کے زمانے میں سمرقند سے ہندوستان آئے، وہ اسی ترسم خان کی اولاد میں تھے۔ مرزا مہر نیمروز کے دیباچے میں لکھتے ہیں؛

از واپسیان این قافلہ نیائے من، کہ در قلمروِ و ماوراءالنہر سمرقند شہر مسقط الراس وے بود، چوں سیل کہ از بالا بہ پستی آید، از سمرقند بہند آمد۔

اور درفش کاویانی میں اس طرح لکھا ہے؛

بالجملہ سلجوقیاں بعد زوال دولت و برہم خوردن ہنگامہ سلطنت در اقلیم وسیع الفضاے ماوراء النہر پراگندہ شدند۔ ازاں جملہ سلطان زادہ رعسم خان کی ما از تخمہ ادیم، سمرقند را بہر اقامت گزید۔ تا در عہد سلطنت شاہ عالم نیائے من از سمرقند بہندوستان آمد۔

مرزا کے دادا کی زبان بالکل ترکی تھی اور ہندوستان کی زبان کی بہت کم سمجھتے تھے۔ اس زمانے میں ذوالفقارالدولہ مرزا نجف خان شاہ عالم کے دربار میں دخل کلی رکھتے تھے۔ نجف خان نے مرزا کے دادا سلطنت کی حیثیت کے موافق ایک عمدہ منصب دلوایا اور پہاسو کا سیر حاصل پرگنہ ذات اور رسالے کی تنخواہ میں مقرر کر دیا۔ ان کے کئی بیٹے تھے، جن میں سے دو کے نام معلوم ہیں؛ ایک مرزا کے باپ عبداللہ خان عرف میرزا دولہا اور نصراللہ بیگ خان۔ عنداللہ بیگ خان کی شادی خواجہ خواجہ غلام حسین خان کمیدان کی بیٹی سے ہوئی تھی، جوکہ سرکار میرٹھ کے ایک معزز فوجی افسر اور عمائد شہر آگرہ میں سے تھے۔ مرزا عبداللہ بیگ نے بطور خانہ داماد کے تمام عمر سسرال میں بس کی، اور ان کی اولاد نے بھی وہیں پرورش پائی۔ مرزا عبداللہ بیگ خان کے دو بیٹے ہوئے؛ ایک مرزا اسداللہ خان، اور دوسرے مرزا یوسف خان جو ایام شباب میں مجنوں ہو گئے تھے اور اسی حالت میں ١٨٥٧ء میں انتقال کیا۔

مرزا کے والد عبداللہ بیگ خان، جیسا کہ مرزا نے خود ایک خط میں لکھا ہے، اول لکھنؤ میں جا کر نواب آصف الدولہ کے ہاں نوکر ہوئے، اور چند روز بعد وہاں سے حیدرآباد پہنچے اور سرکار آصفی میں تین سو سوار کی جمیعت سے کئی برس تک ملازم رہے، مگر وہ نوکری ایک خانہ جنگی کے بکھیڑے میں جاتی رہی، اور وہ واپس آگرے میں چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے الور کا قصد کیا۔ راجہ بختاور سنگھ نے ابھی ان کو کوئی خاطر خواہ نوکری نہیں دی تھی کہ اتفاق سے انہیں دنوں ایک گڑھی کے زمیندار راج سے پھر گئے۔ جو فوج اس گڑھی پر سرکوبی کے لیے بھیجی گئی، اس کے ساتھ مرزا عبداللہ بیگ خان کو بھی بھیجا گیا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی ان کے گولی لگی اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا، اور راج گڑھ میں دفن ہوئے۔ راجا بختاور سنگھ رئیس الور نے دو گانوں سیر حاصل اور کسی قدر روزینہ مرزا مرحوم کے دونوں لڑکوں کے واسطے مقرر کر دیا، جو ایک مدت دراز تک جاری رہا۔ مرزا کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچا نصراللہ بیگ خان نے ان کو پرورش کیا۔

جب سرکار انگریز کی عملداری ہندوستان میں اچھی طرح قائم ہوگئی اور نواب فخرالدولہ احمد بخش خان لارڈلیک کے لشکر میں شامل ہو گئے، تو انہوں نے مرزا غالب کے چچا نصراللہ بیگ خان کو، جن سے نواب موصوف کی ہمشیر منصوب تھیں، سرکاری فوج میں بعہدہ رسالداری ملازم کرادیا۔ ان کی ذات اور رسالےکی تنخواہ میں دو پرگنے یعنی سونک اور سونسا، جو نواح آگرہ میں واقع ہیں، سرکار سے ان کے نام پر مقرر ہو گئے۔ جب تک وہ زندہ رہے، دونوں پرگنے ان کے نامزد رہے اور ان کی وفات کے بعد ان کے وارثوں اور متعلقوں کی پنشنیں سرکار نے فیروزپور جھرکہ سے مقرر کرا دیں جس میں سے سات سو روپے سالانہ مرزا کو آخر اپریل ١٨٥٧ تک برابر ملتا رہا۔ مگر فتح دلی کے بعد تین برس تک قلعے کے تعلقات کے سبب پر یہ پینشن بند رہی۔ آخر جب مرزا کی ہر طرح سے بریت ہو گئی، تو پینشن پھر جاری ہو گئی، اور تین برس کی واصلات بھی سرکار نے عنایت کی۔ جب تک پنشن بند رہی، مرزا کے دوستوں کو نہایت تعلق خاطر رہا۔

لطیفہ؛ اکثر لوگ پنشن کا حال دریافت کرنے کو خط بھیجتے تھے۔ ایک دفعہ میر مہدی نے اسی مضمون کا خط بھیجا تھا۔ اس کے جواب میں مرزا لکھتے ہیں؛ “میاں! بے رزق جینے کا ڈھب مجھ کو آ گیا ہے۔ اس طرف سے خاطر جمع رکھنا۔ رمضان کا مہینا روزے کھا کھا کر کاٹا، آگے خدا رزّاق ہے کچھ اور کھانے کو نہ ملا، تو غم تو ہے۔“

مرزا نے اپنے علّو خاندان پر جابجا فارسی اشعار میں فخر کیا ہے، چوں کہ ان میں سے بعض اشعار لطف سے خالی نہیں، اس لیے اس مقام پر نقل کیے جاتے ہیں؛
قطعہ

غالب! از خاک پاکِ تورانیم
لاجرم در نسب فرہ مندیم
ترک زادیم و در نژاد ہمی
بہ سترگان قوم پیوندیم
اَیبکیم از جماعہ اتراک
درتمامی زماہ در چندیم
فن آبائے ما کشا در زیست
مرزبان زادہ، سمر قندیم
در زمعنی سخن گزاردہ
خود چہ گوئیم، تا چہ و چندیم
فیض حق را، کمینہ شاگردیم
عقل کل را، بہینہ فرزندیم
ہم بہ تابش، بہ برق ہم نفسیم
ہم بہ بخشش، بہ ابر مانندیم
بہ تلاشے کہ ہست، فیروزیم
بمعاشے کہ نیست، خرسندیم
ہمہ برخویشتن ہمی گرییم
ہمہ بر روزگار می خندیم

قطعہ

ساقی! چو من پشنگی و افراسیابیم
دانی کہ اصل گوہرم از

--------**********--------------------

ٹوبہ ٹیک سنگھ


سعادت حسن منٹو



بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل ، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے _

معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول ، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں ، اور با‌لاخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرّر ہو گیا _ اچّھی طرح چھان بین کی گئی _ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے _ وہیں رہنے دئے گئے تھے _ جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا _ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے _ اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا _ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے _ سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دئے گئی_
ادھر کا معلوم نہیں _ لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مگوئیاں ہونے لگیں _ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز با قائدگی کے ساتھ " زمیندار " پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا _ " مولبی ساب ، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے " _ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا _" ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں " _

یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا _

اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا _" سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی " _

دوسرا مسکرایا _ " مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں "

ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے " پاکستان زندہ باد " کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بیہوش ہو گیا _
بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے _ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں _ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے _ لیکن صحیح واقعات سے یہ بھی بے خبر تھے _ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی انپڑھ اور جاہل تھے _ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے _ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمّد علی جناح ہے جس کو قائدِ اعظم کہتے ہیں _ اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے ، اس کا محلِّ وقوع کیا ہے _ اس کے متعلّق وہ کچھ نہیں جانتے تھے _ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں _ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے _ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے _
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان ، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکّر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا _ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی _ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا _ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا " میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہونگا " _

بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا _ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائینگے _

ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے با‌لکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دی _
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سر گرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کر دی _ اس کا نام محمّد علی تھا _ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائدِ اعظم محمّد علی جنّاح ہے _ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا _ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا _
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبّت میں نا کام ہو کر پاگل ہو گیا تھا _ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا _ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبّت ہو گئی تھی _ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا _ چنانچہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دئےاس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی _
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے _ اس کو ہندوستان بھیج دیا جائیگا _ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے _ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا _ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلیگی _
یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے _ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا _ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی _ یوروپین وارڈ رہیگا یا اڑا دیا جائیگا _ بریک فاسٹ ملا کریگا یا نہیں _ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑیگی _
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے _ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین" _ دن کو سوتا تھا نہ رات کو _ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لئے بھی نہیں سویا _ لیٹتا بھی نہیں تھا _ البتّہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا _

ہر وقت کھڑے رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے _ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں _ مگر اس جسمانی تکلیف کے با وجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا _ ہندوستان ، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلّق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا _ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا _" اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ " _

لیکن بعد میں " آف دی پاکستان گورنمنٹ " کی جگہ " آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ " نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے _ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں _ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے _ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے _ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے _ اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غیب ہی ہو جائیں _
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کے بہت مختصر رہ گئے تھے _ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے _ جن کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی _ مگر آدمی بے ضرر تھا _ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا _ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلّق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں _ اچّھا کھاتا پیتا زمین دار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا _ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے _

مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے _ ایک مدّت تک یہ سلسلہ جاری رہا _ پر جب پاکستان ، ہندستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا _

اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے _ اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے ، مہینہ کون سا ہے ، یا کتنے سال بیت چکے ہیں _ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا _ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آ رہی ہے _ اس دن وہ اچّھی طرح نہاتا ، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا ، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا _ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی لالٹین " کہ دیتا _
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی _ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا _ وہ بچّی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی ، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے _

پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے _ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی _ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی _ پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں ، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی _
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہم دردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل ، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے _ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناً اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں _ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں _
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا _ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ، تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا _" وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں _ اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا " _
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اسلئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے _ ایک دن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورو جی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح جو بولے سو نہال ، ست سری اکال " _
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے _
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا _ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا _ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا _ مگر سپاہیوں نے اسے روکا _ " یہ تم سے ملنے آیا ہے تمہارا دوست فضل دین ہے " _
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا _ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا _ " میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے مجھ سے جتنی مدد ہو سکی ، میں نے کی _ تمہاری بیٹی روپ کور . . . . "

وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا _ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا _" بیٹی روپ کور " _

فضل دین نے رک رک کر کہا _ " ہاں . . . . وہ . . . . وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی " _
بشن سنگھ خاموش رہا _ فضل دین نے کہنا شروع کیا _ " انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔ بھائی بلبیسر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا-اور بہن امرت کور سے بھی . . . . بھائی بلبیسر سے کہنا _ فضل دین راضی خوشی ہے۔ وہ بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے _ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے ۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھہ دن کی ہو کے مر گئی . . . . اور . . . . میری لائق جو خدمت ہو ، کہنا ، میں ہر وقت تیار ہوں . . . . اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں " _
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا _ "ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ " _

فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا _ " کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں تھا " _

بشن سنگھ نے پھر پوچھا _ " پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ "

" ہندوستان میں نہیں نہیں پاکستان میں " _ فضل دین بوکھلا سا گیا _

بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دور فٹے منہ ! ،،
تبادلے کے تییاریاں مکمّل ہو چکی تھیں _ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرّر ہو چکا تھا _

سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں _ متعلّقہ افسر بھی ہمراہ تھے _ واہگہ کے بورڈر پر طرفین کے سپرنٹندنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کاروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا _
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا _ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے _ جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے _ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا _ کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے ، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے ۔کوئی گالیاں بک رہا ہے _ کوئی گا رہا ہے _ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں _ رو رہے ہیں ، بلک رہے ہیں _ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے _
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی _ اسلئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے _ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے " پاکستان زندہ باد " اور " پاکستان مردہ باد " کے نعرے لگا رہے تھے _ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا ، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آ گیا تھا _
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلّقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا _ " ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ "

معتلّقہ افسر ہنسا _ " پاکستان میں " _

یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا _ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے ، مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا _ "ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے " اور زور زور سے چلّانے لگا _ " اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان " _
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائیگا _ مگر وہ نہ مانا _ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپن سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی _
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی ، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا _
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا ، اوندھے منہ لیٹا ہے _ ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان _ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئ نام نہیں تھا _ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا _

-----------**************----------

اردو زبان کی ابتداء کے متعلق نظریات




زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداءکی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔


دکن میں اردو
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالا بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد و شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاءسے ہے۔ ابتداء سے نہیں۔“
اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن ) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے ، یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے ۔ طلو ع اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر ، مال تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پیدا ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ ہوسکاجہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے البتہ فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔
سندھ میں اردو
یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں:
”مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہو ا ہوگا۔“
اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاو اسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل “ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوےٰ کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔بقول ڈاکٹر غلام حسین:
”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے ۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتداءکا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔“
اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی ، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگئی۔ اس آمیز ش کا ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
پنجاب میں اردو
حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتداءپنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتداءاس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمو د غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیا م سے تقریباً دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعراءکا کلام پیش کیا ہے ۔ جس میں پنجابی ،فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
”سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 1000ءسے 1026ک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج ، گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا البتہ 1025ءمیں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے ، علماءاور صوفیا نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ درگروہ اسلام قبول کرنے لگے اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا ۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاںکی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان ، عربی ، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔“
مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب ، جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔ 1193ءمیں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہوگئے۔ ابلاہور کی بجائے دہلی کو دارالخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازماً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی ۔
تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے علاوہ پرفیسر محمود خان شیرانی ، اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں: ” اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماءو افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاءبلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد ، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔“
مختصراً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بناءپر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔
پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے ۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو ، پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
حافظ محمود شیرانی کی تالیف”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتداءکے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ ذرا مشکوک سا ہو گیا ۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداءکے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔ یوں حافظ محمودشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔
دہلی میں اردو
اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں ۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی نشوونما اور ارتقاءمیں تو مانی جا سکتی ہے ابتداءاور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان علاقوں کو اردو کے ارتقاءمیں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتداءکا مسلمانوں سے یا سرزمین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس زبان کاآغاز انہی اضلاع میں ہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔“
ان نظریات کے علاوہ میر امن ، سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔
مجموعی جائزہ
اردو کی ابتداءکے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔یوں محققین کی ان آراءکے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند ( موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔

ریاست جموں وکشمیر میں اُردو بحیثیت سرکاری زبان




پروفیسر نذیر احمد ملک
شعبۂ اُردو، کشمیر یونیورسٹی،سرینگر

تین جغرافیائی خطوں پر مشتمل ریاست جموں وکشمیر کا قیام مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور ِ حکومت میں اس وقت عمل میں آیا جب ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ میں امرتسر معاہدے کے تحت اُنہوں نے انگریزوں سے جموں اور کشمری کے صوبوں پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل کیا۔لداخ کا علاقہ پہلے ہی اُن کی تحویل میں تھا۔ڈوگروں کی یہ حکومت ایک صدی سے بھی زائد عرصے تک قائم رہی۔ ڈوگرہ دور ِ حکومت میں ریاست کا بیشتر سرکاری کام فارسی زبان میں انجام پذیر ہوتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ڈوگری کی سرپرستی بھی کی جا رہی تھی۔لیکن انیسویں صدی میں شمالی ہندوستان میں اُردو کے عُروج اور فارسی کی انحطاط پذیر صورت ِ حال کا ثر ڈوگروں کی لسانی حکمت ِ عملی پر بھی پڑا۔مزید ڈوگروں کے شمالی ہندوستان کے درباروں کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ ہندوستان کے شمالی علاقوں سے مختلف امور کے سلسلے میں جو لوگ جموں آتے تھے، وہ اُردو میں ہی بات چیت کرتے تھے۔ ڈوگری ،پنجابی سے گہرا لسانی رشتہ رکھنے کی بنا پر اُردو سے بھی بہت قریب تھی۔چنانچہ اہل ِ جموں کو اُردو سیکھنے میں زیادہ دِقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے کہ اُردو کا پنجابی لہجہ ڈوگروں کے لئے نامانوس نہیں تھا۔چنانچہ رنبی سنگھ کے دور ِ حکومت ۱۸۵۷۔۱۸۸۵ سے ہی جموں میں اُردو کے لئے سازگار ماحول قائم ہونے لگا تھا۔اُن کے دربار سے وابستہ علمائ اور فضلا اُردو سے واقف تھے۔اِن میں دیوان کرپا رام سنگھ،غوث محمد ہوشیار پوری،پنڈت رام کرشن وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ِ ذکر ہیں۔ریاست بالخصوص جموں میں اُردو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،ریاست کی لسانی تقسیم اور شمالی ہندوستان سے تہذیبی، تجارتی اور لسانی رابطوں کے پیش ِ نظر مہاراجا رنبیر سنگھ کے جانشین مہاراجہ پرتاب سنگھ۔۱۸۸۵ تا ۱۹۲۵۔ نے ۱۸۱۸۹ میں فارسی کی جگہ اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔اس طرح پوری ریاست میں اُردو زبان کی اشعات اورفروغ کی راہیں کھلنے لگیں۔بیسیویں صدی کے وسط تک ریاست جموں وکشمیر میں تعلیمی، ادبی، صحافتی، سیاسی، غرض ہر سطح پر اُردو زبان کا ایک اہم اور واضح رول متعین ہو چکا تھا۔ اور اس نے ریاست کی مختلف اکائیوں کے درمیان لنگواا فراینکا کا درجہ بھی حاصل کیا تھا۔چنانچہ جب ۱۹۵۶ میں ریاست کا آئین منظور کیا گیا تو ریاستی قانون ساز اسمبلی نے اُردو کی غیر معمولی عوامی مقبولیت کے پیش َ نظر اس کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی توثیق کیْ اُسی سال ہندوستان میں ریاستوں کی تقسیم بھی لسانی بنیادوں پر کی گئی۔
ریاست جموں وکشمیر چونکہ ایک کثیر لسانی علاقہ ہے اور یہاں بولی جانے والی تمام زبانیں اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہیں۔ نیز اُن کا دائرۂ اثر دُوسرے علاقوں تک نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے اس ایک علاقے کو دوسرے علاقوں پر لسانی اور سیاسی برتری حاصل نہ ہو، ایک بہتر منصوبے کے تحت اُردو زبان کو اس منصب سے سرفراز کیا گیا لیکن انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش بھی واضح طور پرترکھی گئی۔اس سلسلہ میں ریاستی آئین کی دفعہ ۱۴۵ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں:
“The official language of the state shall be Urdu but the English language shall unless the Legislature by law provides, continue to be used for all the official purposes of the state for which it was being used immediately before the commencement of this constitution.”
**********
ریاستی عدلیہ میں زبان کے استعمال کے سلسلہ میں دفعہ ۸۷ کے تحت یہ الفاظ درج ہیں
**********
“1.Business in the Legislature shall be transacted in Urdu or in English. Provided that the speaker of the Legislature Council or person acting as such as the case may be, may permit any member to address the house in Hindi, or if he can not adequately express himself in any of the aforesaid languages, to address the house in his mother tongue.
2.The official record of the proceedings in the Legislature shall be kept in Urdu as well as in English.
3.The text of all th bills and amendments there of moved in and of all Acts passed by the Legislature which shall be treated as authoritative shall be English”

آئین کے چھٹے شڈیول میں کشمیری، ڈوگری،بلتی،دردی،پنجابی،پہاڑی لداخی کو علاقائی زبانوں کے طور پر درج کیا گیا ہے اور اِن تمام زبانوں بشمول اُردو اور ہندی کی ترقی اور اشاعت کے لئے دفعہ ۱۹۶ کے تحت جموں وکشمیر آکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز قائم کرنے کی سفارش اس طرح کی گئی ہے۔
******
“ The Governor shall, as soon as may be, after the commencement of the constitution establish an Academy of Art, Culture and Languages where opportunities will be afforded for the development of Art and Culture of the state and for the development of the Hindi, Urdu and other regional languages of the state specified in the sixth schedule.”
چنانچہ ۱۹۵۸ کو اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز کا قیام عمل میں لایا گیا۔
کسی بھی کثیر السانی ملک، ریاست یا علاقے میں وہاں کی ایک یا کئی زبانوں کو سرکاری درجہ دینے سے فطری طور پر کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کو کبھی کبھی خطرناک صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ سرکاری درجہ ملنے سے ایک زبان اور اس کے بولنے والوں کی ہر طرح سے توقیر بڑھ جاتی ہے۔بالخصوص سیاسی اقتصادی زندگی میں ان کی شمولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔نتیجتاً سماجی زندگی کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی حالات میں ایک’نیوٹرل‘ یا ناوابستہ زبان کو ہی سرکاری درجے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔تاکہ کوئی بھی مقامی لسانی گروہ کسی طرح کے احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ریاست جموں وکشمیر میں اُردو کسی علاقے کی مادری زبان نہیں لیکن یہ زبان اہل ِ ریاست کے لئے اجنبی بھی نہیں ہے۔اس لئے اس کو سرکاری زبان اختیار کرنے میں اہل ِ اختیار نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اس کے ساتھ انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش رکھنا بھی اُن کی دور اندیشی کا مظہر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تہذیبی، نسلی اور لسانی افراق عموماً ملک کی ہمہ گیر ترقی کے لئے رکاوٹ کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس طرح کی صورت ِ حال میں بہتر اور وسیع کمیونی کیشن کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں۔
کسی بھی کثیر السانی ملک، ریاست یا علاقے میں وہاں کی ایک یا کئی زبانوں کو سرکاری درجہ دینے سے فطری طور پر کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ کو کبھی کبھی خطرناک صورت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ سرکاری درجہ ملنے سے ایک زبان اور اس کے بولنے والوں کی ہر طرح سے توقیر بڑھ جاتی ہے۔بالخصوص سیاسی اقتصادی زندگی میں ان کی شمولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔نتیجتاً سماجی زندگی کا توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی حالات میں ایک’نیوٹرل‘ یا ناوابستہ زبان کو ہی سرکاری درجے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔تاکہ کوئی بھی مقامی لسانی گروہ کسی طرح کے احساس ِ کمتری کا شکار نہ ہو جائے۔ریاست جموں وکشمیر میں اُردو کسی علاقے کی مادری زبان نہیں لیکن یہ زبان اہل ِ ریاست کے لئے اجنبی بھی نہیں ہے۔اس لئے اس کو سرکاری زبان اختیار کرنے میں اہل ِ اختیار نے دانشمندی کا ثبوت دیا ہے۔اس کے ساتھ انگریزی زبان کے استعمال کی گنجائش رکھنا بھی اُن کی دور اندیشی کا مظہر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تہذیبی، نسلی اور لسانی افراق عموماً ملک کی ہمہ گیر ترقی کے لئے رکاوٹ کا سبب بنتا ہے کیونکہ اس طرح کی صورت ِ حال میں بہتر اور وسیع کمیونی کیشن کے وسائل محدود ہو جاتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصب کے جذبات بھڑک جاتے ہیں اور سرکاری مشینری کی توجہ ترقی کی رفتار تیز کرنے کے بجائے قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی طردف مرکوز ہو جاتی ہے۔اس طرح کے ملکی حالات میں نیچرل زبان کی سرپرستی اور تشہیر ہمیشہ ملکی اور قومی مفادات کے حق میں ہوتی ہے۔اس کے برعکس ایک علاقائی زبان کو ترجیحی بنیاد فراہم کرنے سے Internal Colonalization کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ جس کو سیاسی قائدین اپنے حقیر مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال میں لا سکتے ہیں۔یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جامع اور ہمہ گیر کمیونی کیشن ،اقتصادی ترقی کی دلیل ہوتی ہے اور بہتر کمیونی کیشن کے لئے ایک زبان کی قبولیت سے اہم اور کار گر وسیلہ ہے۔لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اس طرح کے اقدام سے علاقائی زبانوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا ان کی ترویج اور تشہیر حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہو جاتی بلکہ ان حالات میں سرکار کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں اور حکومت کے لئے ایک واضح لسانی پالیسی مرتب کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔جس کے تحت سرکاری اور علاقائی زبانوں کے رول کو بھی متعین کرنا پڑتا ہے۔

تنقید کیا ہے۔ تنقید اور تخلیق کا رشتہ

وہاب اعجاز خان

  1. تنقید کیا ہے



    تنقید عربی کا لفظ ہے جو نقد سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی ” کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا “ ہے۔ اصطلاح میں اس کامطلب کسی ادیب یا شاعر کے فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ کرتے ہوئے اس کا مقام و مرتبہ متعین کرنا ہے۔ خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کر کے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ شاعر یا ادیب نے موضوع کے لحاظ سے اپنی تخلیقی کاوش کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے مختصراً فن تنقید وہ فن ہے جس میں کسی فنکار کے تخلیق کردہ ادب پارے پر اصول و ضوابط و قواعد اور حق و انصاف سے بے لاگ تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا جاتا ہے اور حق و باطل ، صحیح و غلط اور اچھے اور برے کے مابین ذاتی نظریات و اعتقادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرق واضح کیا جاتا ہے۔ اس پرکھ تول کی بدولت قارئین میں ذوق سلیم پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔انگریزی میں Criticismکہتے ہیں۔ اس کا ماخذ یونانی لفظ Krinien ہے۔ویسے مختلف نقادوں نے اس کی مختلف تعریف و توصیحات کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں

    ١۔ کسی ادب پارے میں فن پارے کے خصائص اور ان کی نوعیت کا تعین کرنا نیز کسی نقاد کے عمل یا منصب یا وظیفہ ۔

    ٢۔تنقید کامل علم و بصیرت کے ساتھ اور موزوں اور مناسب طریقے سے کسی ادب پارے یا فن پارے کے محاسن و معائب کی قدر شناسی یا اس بارے میں فیصلہ صادر کرنا ہے۔

    ٣۔ تنقید اس عمل یا ذہنی حرکت کا نام ہے جو کسی شے یا ادب پارے کے بارے میں ان خصوصیات کا امتیاز کرے جو قیمت رکھتی ہے۔ بخلاف ان کے جن میں قیمت نہیں۔

    ٤۔ محدود معنوں میں تنقید کا مطلب کسی ادب پارے کی خوبیوں اور خامیوں کا مطالعہ ہے وسیع تر معنوں میں اس میں تنقید کے اصول قائم کرنا اور ان اصولوں کو تنقید کے لئے استعما ل کرنا بھی شامل ہے۔

    ٥۔تنقید کا کام کسی مصنف کے کام کاتجزیہ ، اس کی مدلل توضیح کے بعد اس کی جمالیاتی قدروں کے بارے میں فیصلہ صادر کرناہے۔

    ٧۔ سچی تنقید کا فرض ہے کہ وہ زمانہ قدیم کے عظیم فن کاروں کی بالترتیب درجہ بندی اور رتبہ شناسی کرے اور زمانہ جدید کی تخلیقات کا بھی امتحان کرے۔ بلند تر نوع تنقید یہ بھی ہے کہ نقاد کے انداز و اسلوب کا تجزیہ کرے اور ان وسائل کی چھان بین کرے جن کی مدد سے شاعر اپنے ادراک و کشف کو اپنے قارئین تک پہنچاتا ہے۔ 

    ٩۔ تنقید ،فکر کا وہ شعبہ ہے جو یا تو یہ دریافت کرتا ہے کہ شاعری کیا ہے؟ اس کے مناصب و وظائف اور فوائد کیا ہیں؟ یہ کن خواہشات کو تسکین پہنچاتی ہے؟ شاعر شاعر ی کیوں کرتاہے؟ اور لوگ اسے کیو ں پڑھتے ہیں؟ یا پھر یہ اندازہ لگاتا ہے کہ کوئی شاعری یا نظم اچھی ہے یا بری۔ ایلیٹ

    تنقید اور تخلیق کا رشتہ:۔

    تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شاعر یا ادیب فن کی تخلیق سے پہلے کسی نہ کسی مفہوم میں ناقد ہوتا ہے۔ اسی طرح ناقد کو بھی تنقید سے پہلے فن پارے میں مضمر تاثرات و تجربات سے اسی طرح گزرنا ہوتا ہے جس طرح اس فن پارے کا خالق پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔
    یعنی فنکار اپنے تجربات و تاثرات کے انتخاب اور ترتیب میں ناقدانہ عمل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں فن کی روایت اور تکنیک سے بھی اس کی واقفیت ضروری ہے، جس کے باعث وہ خود اپنے فن پر تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔ جس طرح فن کی تخلیق سے پہلے فن کار اپنے مواد کے رد و قبول اور روایت فن کے بارے میں تنقیدی عمل سے گزرتا ہے اسی طرح فن کی تخلیق کے بعد بھی اسے ناقد بننا پڑتا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ فن پارے کو بہ حیثیت ناقد دیکھتا ہے۔ اس کے حسن و قبح پر نظر ڈالتا ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کی تخلیق سے پہلے اور فن کی تخلیق کے بعد تخلیقی فن کار ناقد کا رول ادا کرتا ہے۔
    ناقد کو بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال درپیش ہوتی ہے۔ وہ تنقید کرنے سے پہلے کسی فن پارے کے مشاہدات و تخیلات ، تجربات و تاثرات سے اسی طرح گذرتا ہے جیسے فنکار گزرا تھا۔ وہ تخلیقی فن پارے کو اپنی ذات کا مکمل تجربہ بنا کر ہی اس کے حسن و قبح کا اندازہ کر سکتا ہے۔ کسی نظم کا تجزیہ کرنے سے پہلے وہ اسے اپنی ذات میں حل کر تا ہے۔ یہاں تک کہ فن کار کا تاثر اس کا اپنا تاثر اور فن کار کے جذبات اور احساسات اس کے اپنے جذبات اور احساسات بن جاتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ فن پارے کی ہمدردانہ وضاحت نہیں کر سکتا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ناقد کو تخلیقی فن کار کی طرح مشاہدے اور تجربات کی وسعت اور جذبات کی شدت کا حامل ہونا چاہیے ورنہ وہ فن پارے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔ اور اس کے لئے وہ ہمہ وقت مطالعے اور مشاہدے سے اپنے ذوق کی تربیت کرتا ہے۔ وہ فن کا ر کی طرح فن کی روایت اور تکنیک سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اور کم از کم ہر اچھے ناقد سے ہم ان تمام صلاحیتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔
    تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت ہے، اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لئے ممدو معاو ن ہوتی ہیں۔
    تنقید ی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لئے جاتے ہیں تو آیندہ فنی تخلیق کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنی کتاب بوطیقا میں فن کے جو اصول پیش کئے ہیں ، وہ اس نے یونان کے عظیم ڈرامہ نگاروں کو سامنے رکھ کروضع کئے تھے۔ لیکن ارسطو کی بوطیقا صدیوں تک تخلیق فن کے لئے مشعل راہ بنی رہی اور آج بھی مستند ہے۔ بسا اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ انگلستان میں سڈنی کی تنقید کے اخلاق اور اصلاحی پہلو سے متاثر ہو کر دور ِ ایلزبتھ کے مشہور شاعر سپنسر نے اپنی تمثیل فیری کوئین لکھی ۔ 
    ہمار ے اپنے ادب کے لئے آزاد کے لیکچر اورحالی کا مقدمہ اردو شاعری کی ایک انقلابی رو کی بنیاد ٹھہرے ۔ آزاد اورحالی نے اپنے تنقیدی تصورات کے ذریعے اردو شاعری میں موضوع اور تکنیک کے لئے نئے راستے ہموار کئے اور اس طرح ہماری زبان میں نئے شعری تجربات کی بنیاد ڈالی۔
    اس کے باوجود تنقیدجلد ہی ایک قسم کا تعصب بھی بن جاتی ہے ۔ معاشرے کے بندھے ٹکے اصولوں کی طرح یہ ہر فنی تخلیق کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں تخلیق ایک انقلابی رول ادا کرتی ہے۔ یعنی یہ تنقید کے پرانے اصولوں کو توڑ کر اپنے پرکھے جانے کے لئے نئے معیارات اور نئی کسوٹیاں بنواتی ہے۔ ورڈزورتھ اور ٹی ایس ایلیٹ کا جو اپنے زمانے کے عظیم نقاد اور عظیم شاعر مانے جاتے ہیں،کا یہ کہنا ہے کہ ہر عظیم فن پارہ اپنے تنقیدی اصولوں کو لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم کسی ایسی تخلیق کوجو فی الوقعی نئی ہو اور ساتھ کسی عظمت کی حامل ہو تنقید کی پرانی کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے ۔ اس طرح ہمیں کسی عظیم شاعر کی عظمت دیکھنا ہو تو ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آیاو ہ اپنے سے پہلے کے تنقیدی اصولوں میں ترمیم و تنسیخ کے لئے جواز پیدا کرتا ہے یا نہیں۔ ایسا شاعر جو اپنے زمانے کے تنقیدی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترے وہ اچھا شاعر توہو سکتا ہے عظیم شاعر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس مقام پر ہمیں تھوڑا سا چوکنا ہو جانا چاہیے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر ایسی تخلیق کو جو محض اچھنبھا پیدا کرے یا ادب کی دنیا میں خلفشار اور انتشار کا باعث ہو عظیم شاعری کے زمرے میں شمار کر رہے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی تخلیقات کو سرے سے فن پارہ ماننے سے انکار کر دیں اس لئے کہ تخلیق کے معنی بنانے کے ہیں ، بگاڑنے کے نہیں ، فن بنیادی طور پر تعمیری عمل ہے اور اس کا تخریب و انتشار سے کوئی تعلق نہیں۔

    نقاد کا منصب یا فرائض:۔

    نقاد کے فرائض یا منصب مندرجہ زیل ہیں۔

    تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنا:۔

    نقاد فن پاروں کا مطالعہ کرکے تخلیقی ادب کی ماہیت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنقید کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ ادب کیا چیز ہے ؟ یہ زبان کی دوسری صورتوں اور اظہار و بیان کی دیگر قسموں سے کس طرح مختلف ہے؟ اور فنون لطیفہ میں اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ نقادکا کام چونکہ تجزیاتی ہوتا ہے اس لئے وہ ادب کی ماہیت معلوم کرنے کے لئے دیگر علوم سے بھی مدد لیتا ہے۔ ارسطو وہ پہلا نقاد ہے جس نے اپنی شہر آفاق کتاب ”بوطیقا“ کی شکل میں سب سے بڑا تنقیدی کارنامہ انجام دیا ہے اس نے فلسفیانہ انداز میں ادب کی ماہیت سے متعلق حقائق دریافت کئے ہیں۔ اور استقرائی طریق کار اختیار کرکے اکثر فن پاروں میں مشترک خصوصیات کی نشاندہی کی ہے۔ کولرج کے نزدیک بھی تنقید کا منصب فلسفیانہ ہے وہ کہتا ہے۔ 
    ” تنقید کا آخری مقصد دوسروں کی تخلیقات کا محاکمہ کرنا نہیں بلکہ تخلیقی ادب کے اصول دریافت کرنا ہے۔“
    اس منصب کے مطابق ایک نقاد فن کو معروضی نقط نظر سے دیکھ کر ایک سائنس دان کی طرح اس کے عناصر ترکیبی معلوم کرنے کی سعی کرتا ہے۔

    فن کار کے لئے درس و ہدایت:۔

    تنقید فن کو سنوارتی ہے اور فنکار کی رہنمائی اور اصلاح کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔ نقاد اپنے تجربات سے فن کار میں تخلیق کا بہتر شعور اور فن سے دلچسپی رکھنے والوں کو متاثر کرکے ان میں صحیح مذاق پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نقاد چونکہ فن کی ترقی کا خواہاں ہوتا ہے اس لئے اس کی تنقید کا مقصد ہمیشہ مثبت اور تعمیر ی ہوتا ہے۔ وہ مصنف کی تضحیک نہیں اڑاتا اور نہ اس کی تصنیف کی بے قدری کرتا ہے بلکہ اسے فنکار سے ایک گونہ ہمدردی ہوتی ہے۔ وہ اس کی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے محاسن و معائب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے اس کا مقصد فنکار کی حوصلہ شکنی نہیں ہوتا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی ، رہنمائی اور اصلاح پیش نظر ہوتی ہے۔

    تخلیقی تجربے کی باز آفرینی:۔

    نقاد ایک لحاظ سے تخلیقی بھی ہوتا ہے اس کی تنقید میں فن کار کے تخلیقی تجربے اور عمل کی صدائے بازگشت ہوتی ہے۔ جب وہ کسی فن پارے کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو وہ صرف فن پارے کے حسن و قبح کا احاطہ ہی نہیں کرتا بلکہ اس میں یہ جذبہ کارفرما ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ قارئین بھی اس تخلیق سے بہرہ مند ہوں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ مصنف نے اپنے فن پارے کو کن جذبات و احساسات اور حالات و واقعات کے تحت تخلیق و تشکیل کی صورت عطا کی ہے۔ کن الفاظ اور کس انداز سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ اور اسے اپنے مقصد میں کس حد تک کامیابی یا ناکامی ہوئی ہے۔ یہی احساس نقاد کو ایک گونہ مسرت بہم پہنچاتا ہے۔ اور وہ قارئین کو بھی اپنی مسرت میں شریک کرنے کی سعی کرتا ہے۔ بقول آرنلڈ،
    ” قوت تخلیق سے بہر مند ی کا احساس بڑا مسرت افزاءاور صحت بخش ہوتا ہے اور ایک کامیاب نقاد جو زندہ دل مصلح ہوتا ہے اس سے یقینا محروم نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے اس احساس مسرت میں دوسروں کو بھی شریک کر لیتا ہے۔“
    گویا نقاد فنکار کے خواب کی بھی تشریح و تعبیر بیان کرتا ہے اور کسی فن پارے کے تجزیہ سے حاصل شدہ تاثرات و تجربات سے صاحبان ذوق کو لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ 

    تخلیق فن کے لئے سازگار فضا پید ا کرنا:۔

    بقول آرنلڈ نقاد کا فرض یہ بھی ہے کہ وہ” اعلیٰ و ارفع افکار و خیالات حاصل کرکے ان کی ترویج و اشاعت کرے۔“ اس عمل سے وہ معاشرے میں ایسے عنصر پیدا کرنے میں کامیا ب ہو جائے گا۔ جو تخلیقی ذہن کو جلا بخش کر تخلیق فن کا موجب بنیں گے اور اس طرح معاشرے کے لئے درس و ہدایت کا سامان فراہم کرے گا جس سے معاشرے میں اچھی صحت مند روایات قائم ہو جائیں گی۔ اس طرح تنقید ادب معاشرتی اصطلاح کا ایک موثر ذریعہ بن جائے گی۔ اور نقاد کو ایک مصلح اور معلم اخلاق کا درجہ بھی حاصل ہو جائے گا جو والٹ وٹیمن کے نزدیک تنقید کی رفعت اور نقاد کا اعلیٰ و ارفع نصب العین ہے۔

    فن پاروں کی تشریح و توضیح:۔

    بقول ایلیٹ ”تنقید کا مقصد فن پاروں کی تشریح و توضیح کرنا ہے۔“ نقاد نقد و جرح کرتے وقت صرف کسی فن پارے کے محاسن و معائب ہی بیان نہیں کرتا بلکہ اس کی معنویت کو بھی اس طرح عیاں اور واضح کردیتا ہے کہ اس کی تفہیم میں قاری کو بڑی مدد ملتی ہے۔ اور وہ اس کی اثر انگیزی سے بڑا متاثر ہوتا ہے۔ اور یہی وہ فنی تاثر ہے جو نقاد کی کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔ کومز لکھتا ہے کہ
    ”ایک اچھا نقاد ، جہاں تک اس سے ہو سکتا ہے، اپنے سوچے سمجھے تاثر کو جو اس نے کسی مصنف کسی ڈرامے، کسی ناول ، کسی نظم، کسی مضمون وغیرہ سے حاصل کیا ہوتا ہے ممکن اور واضح طور پر ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اس طرح فن پارے کی اس تفہیم اور لطف اندوزی کے عمل میں مدد بہم پہنچاتا ہے جو اسے تجربے سے حاصل ہوتی ہے ، جو فن پارے کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور اس کی پرکھ تول کر کے ان عناصر کا انکشاف کرتا ہے جنہوں نے مل کر اس فن پارے کو مخصوص صفت عطا کی ہے۔“
    ڈیوڈ ڈایشز بھی لکھتاہے کہ 
    ” نقاد ادب کے بارے میں کئی قسم کے سوالات اٹھاتا ہے ۔ تاہم اگر وہ کوئی سوال نہ بھی اُٹھائے تو فن کی مختلف طریقوں سے شرح و بسط کرکے قاری کی تحسین فن میں اضافہ کر دیتا ہے۔“
    مختصراً تشریحی نقاد فن پارے کی ساخت اور تکنیک کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے معنی و مفاہیم کو واضح کرتا ہے اور یوں وہ اس سے پیدا ہونے والے لطف و سرور کا ابلاغ کرتا ہے اور قارئین کو زندگی سے متعلق شعور عطا کر تا ہے۔

    معائب و محاسن کو بیان کرنا:۔

    ٹی ۔ ایس ۔ایلیٹ کے خیال کے مطابق ” جہاں تنقید کا منصب فن پاروں کی تشریح و توضیح ہے وہاں فن کی تحسین ، تخلیق کے قریب چیز بھی ہے۔ تحسین کاکام چیزوں کو اجاگر اور روشن کرنا، تحریک دینا اور استحسان ( ذوق ادب) کے لئے ہماری ذہانت کو جلا بخشنا ہے۔ “ اور ایڈسن کے خیال میں ”ایک سچا نقاد کسی ادیب یاکسی ادب پارے کی خامیوں پر اتنا زور نہیں دیتا جتنا کہ اس کی خوبیوں پر۔“ ہڈسن لکھتا ہے کہ ” اگر ادب مختلف صورتوں میں تشریح حیات ہے تو تنقید ادب کی اس تشریح کی تشریح ہے۔“ ان نقادوں کی آرا ءسے یہ مترشح ہوتا ہے کہ نقاد کا کام صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہے اور اسے اس کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرنی چاہیے۔ حالانکہ تحریر کے عیوب اور اظہار و بیان کے انداز کے معائب بے نقاب کئے بغیر محاسن کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے تنقید کا منصب صرف فن پارے کے محاسن بیان کرنا ہی نہیں بلکہ اس کے معائب کوبھی قارئین کے سامنے لانا ہے۔ کیونکہ محاسن و معائب کے ایک ساتھ بیان سے نقاد فن کار کی رہنمائی کرتا ہے اور فن کی ترقی کے لئے راہیں کھولتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ نقاد کا ایسا بے لاگ اور متوازن بیان عام قارئین کے ذوق ادب میں اضافہ اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔

    شاعروں کو دوبارہ زندہ کرنا:۔

    ٹی۔ایس ۔ ایلیٹ کے خیال میں تنقید کا ایک منصب ان شاعروں کو زندہ کرنا بھی بتایا ہے جو عرصہ دراز سے گوشہ گمنامی میں ہوں ۔ بعض اوقات یو ں بھی ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی شہرت اس کی چند ایک نظموں کی وجہ سے ہوتی ہے یا اس کی شاعری میں اس کے فن کی بلندی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ جواس کی شہرت دوام کا موجب نہیں بن سکتی ۔ ایلیٹ لکھتا ہے کہ تنقید کا یہ کام بھی ہے کہ وہ ان شاعروں کو ازسرنو زندہ کرے ۔ ان کے کلام میں جتنے بھی محاسن موجود ہیں انہیں عوام کے سامنے پیش کرے ہو سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں سے بعض ایسی چیزیں مل جائیں جن کا موجودہ زمانے کوعلم نہ ہو۔

    تنقید روح عصر کی عکاس :۔

    ڈرائیڈن اور شیگل کا خیال ہے کہ شاعر روح عصر ( ماحول اور زمانہ ) کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے مزاج میں اس کی نسل و قوم کو بھی دخل ہوتا ہے جو کسی فن پارے کی تخلیق پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ گویا ادب اس طرح روح عصر کا عکاس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نقاد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تنقید کرتے وقت ان تمام عوامل (نسلی ، سماجی، سیاسی، واقعاتی) کا جائز ہ لے جو کسی عصر (دور) کا مزاج متعین کرتے ہیں اور فن پارے کی تخلیق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

    تنقید اور ادب کے نامیاتی عمل کا شعور:۔

    بقول ایلیٹ ، ” ہر ملک کاادب ایک عضویاتی کل کی طرح ہوتا ہے اور زندہ شے کی طرح نشوونما پاتا ہے۔ “ اس کے مطا بق ”ہر شاعر کو ادب سے متعلق اس حقیقت کا کامل شعور ہونا چاہیے جب وہ حقیقی تخلیق کر سکتا ہے۔ نقاد اس زندہ روایت کے حوالے سے ہر ادیب اور فن پارے کا جائزہ لیتا ہے۔ “ مطلب یہ کہ نقاد نقاد کا فرض بنتا ہے کہ ادب کے اس تصور کو خود حاصل کرے اور پھر قارئین کے سامنے وضاحت کے ساتھ پیش کرے۔ اس طرح نہ صرف قارئین کے عام تصور ادب کی اصلاح ہوتی ہے بلکہ تخلیقی فن کاروں کے لئے بھی یہ تصور علم و ہدایت او ر اصلاح و رہنمائی کا سبب بنتا ہے اور وہ خود کو اور اپنے فن کو ادب کی اس زند ہ روایت کی روشنی میں دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
    ا ن تمام باتو ں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناقد کا فرض ہے کہ اس کا علم وسیع ہو اور ذہن تیز ہو ۔ عدل سے کام لے۔ تعصب جانبداری سے کام نہ لے ۔ جذبات سے بالاتر ہو کر بے لاگ تجزیہ کے بعد کسی فن پارے پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ رائے متوازن معیاری اور صحت مند سمجھی جائے ۔ وہ اپنے ان فرائض کو مکمل دیانتداری سے بجالائے تاکہ فن کا معیار بلند ہو ادیب و قاری کے ذوق سلیم میں اضافہ ہو۔ وہ ذاتیات اور پسند و ناپسند کا غلام نہ بنے ۔ اس کے علاوہ اسے مصنف کے احساسات اور جذبات سے آشنا ہونا چاہیے تاکہ وہ فن پارے کا صحیح طریق سے جائزہ لے سکے ورنہ اس کے تاثرات بے ربط اور بے معنی ہوں گے۔